National

لوک سبھا انتخاب 2024: مغربی مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں بی جے پی کے تئیں زبردست ناراضگی… نوین کمار

179views

مہاراشٹر میں انتخابی سیاست کا منظرنامہ اس مرتبہ کافی بدلا ہوا ہے۔ یہ تبدیلی حقیقی شیوسینا اور حقیقی این سی پی میں توڑ پھوڑ کے بعد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ صرف سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی سیاسی سوچ میں بھی اٹھا پٹخ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مغربی مہاراشتر کے کولہاپور، سانگلی، ستارا اور بارامتی لوک سبھا حلقوں میں تیسرے مرحلہ میں 7 مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہاں انتخابی تشہیر کا طریقہ سورج کی 40 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت نے بدل دیا ہے۔ گھر گھر جا کر ووٹرس سے ملاقات کی جا رہی ہے اور پیدل سفر کے ذریعہ انتخابی تشہیر کو انجام دیا جا رہا ہے۔ جلسہ گاہوں میں پارٹی کارکنان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ گھر گھر تشہیری مہم کو کامیاب بنایا جائے۔

مغربی مہاراشٹر کا دورہ کرنے کے دوران لوگوں نے جس طرح سے اپنے جذبات کو ظاہر کیا، اس سے خاص طور پر دیہی علاقے کے لوگوں میں بی جے پی کے تئیں ناراضگی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ان لوگوں کی رائے ہے کہ بی جے پی اقتدار کی لالچی ہے اور اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا رہی ہے۔ بیشتر لوگوں کو دوسری پارٹیوں کو توڑنے والی بی جے پی کی پالیسی پسند نہیں آ رہی۔ کسان، نوجوان اور خواتین کے اپنے اپنے مسائل بھی ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ ان کے رکن پارلیمنٹ مسائل کو سلجھانے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔

ویسے مغربی مہاراشٹر بہت بڑا اور خوشحال ہے۔ یہ شگر بیلٹ ہے، لیکن یہاں صنعت کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ نوجوانوں کو روزگار کے لیے ممبئی اور پونے ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ دنیش پاٹل ایک گریجویٹ نوجوان ہیں۔ وہ کولہاپور کے ایک ہوٹل میں پارٹ ٹائم ویٹر کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں مراٹھا ریزرویشن کے تحت پولیس میں ملازمت کا انتظار کر رہا ہوں۔ دنیش مزید کہتے ہیں کہ میرے جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جن کے پاس روزگار نہیں ہے۔ تکنیکی تعلیم لینے والے نوجوانوں کو بھی ملازمت کے لیے کولہاپور سے باہر جانا پڑتا ہے۔ دنیش کو اپنے علاقہ کے رکن پارلیمنٹ سنجے منڈلک سے شکایت ہے کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ رہتے تو ہیں، لیکن پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار دلانے کا کام نہیں کرتے۔ یہاں صنعت کی کمی ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صنعتی ادارے کھلنے چاہئیں جس سے بے روزگاری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

صنعت اور بے روزگاری کا مسئلہ صرف کولہاپور میں ہی نہیں ہے بلکہ اس سے ملحق پارلیمانی حلقہ سانگلی اور ستارا میں بھی ہے۔ سانگلی کے ونایک جادھو کہتے ہیں کہ ’’سانگلی میں سب سے بڑا ایشو روزگار اور صنعت ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے لیے پونے اور ممبئی پر منحصر ہیں۔ اس لیے مقامی لوگ اور نوجوان اب تبدیلی کی خواہش رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ونایک کہتے ہیں کہ کولہاپور کی طرح سانگلی کی ترقی نہیں ہو پائی ہے۔ کولہاپور کی طرح ہی سانگلی کو بھی شاہراہ سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ زراعت سے اپنے کنبہ کی پرورش کرنے والے نلیش چوہان بتاتے ہیں کہ ’’پنچ گنگا ندی کی شناخت کولہاپور شہر کی شان کے طور پر ہے۔ کرشنا ندی کی یہ معاون ندی اب آلودہ ہے۔ اسی ندی پر کولہاپور، ایچل کرنجی اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ اپنے معاش کے لیے منحصر ہیں۔ یہ ندی پینے کے پانی اور زراعت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ لیکن اسے آلودی سے پاک کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ اس انتخابی ماحول میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس کے لیے 3200 کروڑ روپے کا پروجیکٹ تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘‘ نلیش یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرکز کے منصوبوں سے کسانوں کے کھاتے میں جو پیسے آتے ہیں، اس سے زراعت میں ہونے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ ہر سال برسات کے پانی سے سیلاب آتا ہے اور ژالہ باری سے فصل کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کا ازالہ مرکزی اور ریاستی حکومت نہیں کر پاتی۔ اس کے لیے کسانوں کو جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہاں خشک سالی کی مار بھی پڑتی ہے۔

ستارا کے وشواس پوار کا کہنا ہے کہ ’’مرکز کے منصوبوں کا فائدہ عام طور پر کسانوں و خواتین کو مل جاتے ہیں، لیکن ترقی کے جو کام ہونے چاہئیں اور اس کے لیے سیاسی طور سے جو کوششیں ہونی چاہئیں وہ نہیں ہو پا رہی ہیں۔‘‘ بارامتی کی ایک عمر دراز دیہی خاتون امبیکا تائی کو کملا بائی (بی جے پی کے کمل انتخابی نشان) سے چِڑھ ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’کملا بائی نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ گزشتہ انتخاب میں بی جے پی کی امیدوار کے وعدے پر کمل کو ووٹ دیا تھا، لیکن مجھے وعدے کے مطابق کچھ نہیں ملا۔‘‘ دراصل وہ پنشن کے لیے بھٹک رہی تھی۔ ان کا پنشن سپریا سولے نے شروع کروایا ہے، اس لیے امبیکا تائی سپریا کی پدیاترا میں حصہ لینے کے لیے پونے چلی آئیں۔ وہ غصے میں کہتی ہیں کہ کملابائی کو تو کبھی ووٹ نہیں کروں گی۔

چھترپتی شیواجی مہاراج کی نسل سے دو دو امیدوار میدان میں ہونے سے اور پوار فیملی کے آپس میں سیاسی لڑائی لڑنے سے مغربی مہاراشٹر پر سب کی نظریں مرکوز ہیں۔ کولہاپور سے شاہو چھترپتی مہاراج اور ستارا سے چھترپتی ادین راجے بھوسلے میدان میں ہیں۔ یہ شاہو چھترپتی انڈیا اور مہا وکاس اگھاڑی سے کانگریس کی ٹکٹ پر، جبکہ چھترپتی بھوسلے بی جے پی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ شاہو چھترپتی کا مقابلہ بی جے پی کے سنجے منڈلک سے ہے اور چھترپتی بھوسلے کی ٹکر شرد پوار گروپ کی این سی پی سے امیدوار ششی کانت شندے سے ہے۔ ترقی پسند نظریات کے ساتھ سماجی اصلاح کو آگے بڑھانے کا کام شاہو مہاراج کر رہے ہیں، تو مودی کے ہندوتوا سے ہٹ کر شیواجی کے ’سَرو دھرم سمبھاؤ‘ (سبھی مذاہب کی عزت) کو ذہن میں رکھ کر کام کرنے کے لیے چھترپتی بھوسلے انتخابی میدان میں اترے ہیں۔

اُدھر بارامتی میں چچا-بھتیجا کے درمیان وجود کی لڑائی ہے۔ اپنے چچا شرد پوار سے الگ ہو کر بھتیجے اجیت پوار نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔ اب انھوں نے اپنی بیوی سنیترا پوار کو اپنی چچیری بہن اور موجودہ رکن پارلیمنٹ سپریا سولے کے سامنے میدان میں اتار دیا ہے۔ اس سے پوار کنبہ کی لڑائی انتخابی میدان میں آ گئی ہے۔ شرد پوار کی پارٹی کے ایک لیڈر سندیش پاٹل کا کہنا ہے کہ ’’بارامتی میں حالت صاف ہو گئی ہے کہ کون شرد کے حامی ووٹر ہیں اور کون اجیت کے حامی ووٹر۔ اس لیے ایشو یہی ہے کہ شرد کی پارٹی کو جیت دلانی ہے۔‘‘ سپریا نے اپنے علاقے میں ڈیولپمنٹ کا کام کیا ہے اور وہ اسی کے زور پر ووٹ مانگ رہی ہیں۔

سانگلی میں ادھو گروپ کی شیوسینا نے پہلوان چندرہار پاٹل کو میدان میں اتارا ہے، جبکہ بی جے پی نے تیسری مرتبہ سنجے کاکا پاٹل کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ وسنت دادا پاٹل کے پوتے وِشال پاٹل کے بھی آزاد امیدوار کی شکل میں میدان میں آنے سے یہاں سہ رخی مقابلہ نظر آ رہا ہے۔ ’لوک مت‘ پونے کے مدیر اور سیاسی تجزیہ نگار سنجے آوٹے کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے جس طرح سے شیوسینا اور این سی پی کو توڑا ہے اس سے ان دونوں پارٹیوں کے کارکنان ناراض ہیں۔ آوٹے کا ماننا ہے کہ شیوسینا سے بغاوت کر کے کچھ اراکین اسمبلی، اراکین پارلیمنٹ اور لیڈران وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ساتھ چلے گئے اور اُدھر اجیت بھی اپنے ساتھ اراکین اسمبلی لے گئے۔ لیکن ان دونوں پارٹیوں کے ووٹرس پوری طرح سے تقسیم نہیں ہوئے ہیں۔ ادھو اور شرد کے ساتھ ان کے کارکنان اور ووٹرس کی ہمدردی ہے۔ اس وجہ سے مہاراشٹر میں ’انڈر کرنٹ‘ بی جے پی مخالف ماحول ہے۔

آوٹے کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ووٹرس کو ایک تکنیکی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خاص کر شیوسینا اور این سی پی کے ووٹرس کو۔ ووٹرس کو پتہ ہے کہ شیوسینا کا انتخابی نشان ’تیر-دھنش‘ ہے، لیکن ادھو کی شیوسینا کا اب انتخابی نشان مشعل ہوگا۔ اسی طرح سے شرد کی این سی پی کا انتخابی نشان گھڑی سے بدل کر توتاری ہو گیا ہے۔ اس سے ووٹر کنفیوز رہیں گے اور ادھو-شرد کو نقصان ہو سکتا ہے۔ آوٹے کا یہ بھی ماننا ہے کہ مغربی مہاراشٹر میں ہندوتوا اور رام مندر کا ایشو نہیں ہے۔ مراٹھا ریزرویشن کا بھی ایشو کچھ خاص نہیں ہے۔ مراٹھا ووٹ بینک منظم نہیں ہے۔ بی جے پی نے مراٹھا تحریک کی آڑ میں او بی سی ووٹ کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں مودی فیکٹر بھی کچھ خاص نہیں ہے، کیونکہ شیوسینا اور این سی پی کے ٹوٹنے کے بعد ادھو اور شندے کے علاوہ شرد اور اجیت کے درمیان جنگ چل رہی ہے۔ اس میں مودی غائب ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بدعنوانی کے علاوہ جمہوریت اور آئین کو بچانے کا ایشو بھی ہے۔

Follow us on Google News
Jadeed Bharat
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.