پاکسو کیس میں کلکتہ ہائی کورٹ کا سخت مؤقف
کولکاتہ :کلکتہ ہائی کورٹ نے ایک نہایت حساس POCSO کیس کی سماعت کرتے ہوئے اہم اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ عدالت نے واضح کہا کہ محبت کے رشتے میں ہونے کے باوجود بھی کوئی نابالغ جنسی تعلقات کے لیے قانونی طور پر رضامندی نہیں دے سکتا۔ نابالغ کی طرف سے دی گئی رضامندی کسی بھی صورت میں قبول نہیں کی جا سکتی، کیونکہ قانون کے مطابق یہ رضامندی معتبر نہیں ہوتی۔
یہ معاملہ کئی سال پرانا ہے۔ کیس کے مطابق 2014 میں ایک لڑکی، جو اُس وقت نابالغ تھی، ایک لڑکے کے ساتھ رشتے میں آئی۔ بعد ازاں 2016 میں دونوں کے درمیان جنسی تعلق قائم ہوا۔ الزام ہے کہ معمولی اعتراض کے باوجود لڑکے نے اُس کے ساتھ بار بار جنسی زیادتی کی، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ جب یہ بات گھر والوں اور مقامی لوگوں کے علم میں آئی تو ملزم نے بچے کی ولدیت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کے بعد نارکل ڈانگا پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت درج کرائی گئی۔
نچلی عدالت نے تمام شواہد کی بنیاد پر ملزم کو قصوروار ٹھہرا کر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ تاہم ملزم نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی، جس میں اس نے متاثرہ کی عمر، رضامندی اور دیگر نکات پر سوال اٹھائے۔
جسٹس راج شیکھر منتھا اور جسٹس اجے کمار گپتا کی ڈویژن بنچ نے اپیل پر سماعت کی۔ عدالت نے کہا کہ اگر متاثرہ کا بیان یکساں ہے اور ڈی این اے رپورٹ بھی الزامات کی تصدیق کرتی ہے، تو پھر مزید ثبوت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ ’’چاہے فریقین کے درمیان محبت کا رشتہ کیوں نہ ہو، نابالغ کسی بھی قسم کے جنسی تعلق کے لیے قانونی طور پر رضامندی نہیں دے سکتی، اور اگر دیتی بھی ہے تو وہ قانوناً قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
عدالت نے نچلی عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے مزید ہدایات جاری کیں۔ اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ 15 دن کے اندر متاثرہ کو 1 لاکھ 80 ہزار روپے بطور معاوضہ ادا کرے، جبکہ ملزم کو بھی 2 لاکھ روپے اضافی ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اگرچہ ملزم اس وقت ضمانت پر تھا، لیکن ہائی کورٹ نے اسے فوراً سرنڈر کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ فیصلہ ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ نابالغوں کے ساتھ جنسی جرائم میں محبت، تعلق یا رضامندی جیسے جواز کسی بھی صورت میں قانونی یا اخلاقی وزن نہیں رکھتے۔



