
غزہ کے انتظام کے حوالے سے مصر کے اقدام کو مثبت انداز میں لیا ہے: حماس
رام اللہ 06 جنوری (ایجنسی) مغربی کنارے میں قلقیلیہ کے مشرق میں واقع “کدومیم” بستی کے قریب دو فلسطینیوں کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے حملے میں دو خواتین سمیت تین اسرائیلی ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ فائرنگ میں کدومیم بستی کے علاقے میں روٹ 55 پر ایک بس اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ذرائع نے بوندوک گاؤں کے قریب روٹ 55 پر ایک بس کے سامنے سے گزرنے والی کار سے فائرنگ کی بھی اطلاع دی۔ اسرائیلی فوج نے اس مقام پر بڑی کمک بھیج دی۔اسرائیلی چینل 13 نے اطلاع دی ہے کہ مغربی کنارے میں ایک دہشت گردانہ حملے کے دوران ایک بس پر فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئے۔ بوندوک اور کدومیم بستیوں کے درمیان ایک بس کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور جس کار میں سفر کر رہے تھے وہ نابلس کے علاقے کی طرف بھاگ گئی۔اسرائیلی فوج نے شمالی مغربی کنارے کے علاقے قلقیلیہ میں ہونے والے فائرنگ کے حملے کے ذمہ داروں کی تلاش کے لیے آپریشن شروع کردیا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق فائرنگ کا یہ واقعہ آج صبح بوندوک گاؤں کے قریب اس وقت پیش آیا جب ایک گاڑی سے دو گاڑیوں اور آباد کاروں کی ایک بس پر فائرنگ کی گئی۔اسرائیلی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ قلقیلیہ کے مشرق میں فائرنگ کے حملے کے مرتکب افراد علاقے میں قابض فوج کی شدید تعیناتی کے درمیان اس جگہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اسرائیل کے آرمی ریڈیو کے مطابق سکیورٹی اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ فائرنگ دو فلسطینیوں نے کی ہے۔
ایک سال سے زائد عرصے سے فلسطینی پٹی پر جاری اسرائیلی بمباری کے تناظر میں غزہ میں جنگ بندی اور حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے لیے بات چیت جاری ہے۔اس حوالے سے ثالثی مصر، قطر اور امریکہ کر رہے ہیں۔ حماس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے حال ہی میں غزہ کی پٹی کو بچانے کے لیے بہت سے اقدامات اور تجاویز وصول کی ہیں۔حماس نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے لچک کا مظاہرہ کیا اور غزہ کے انتظام کے لیے مصر کے اقدام اور فلسطینی صفوں کو متحد کرنے کے لیے دیگر اقدامات کو مثبت انداز میں لیا ہے۔حماس نے وضاحت کی کہ اس نے مصری کوششوں کا جواب دیا اور ایک قومی اتفاق رائے والی حکومت یا ٹیکنوکریٹس حکومت بنانے کی کوشش کی ہے۔ غزہ کی پٹی کے معاملات کو عارضی طور پر سنبھالنے کے لیے ایک کمیونٹی سپورٹ کمیٹی بنانے کے لیے مصر کے عرب حمایت یافتہ اقدام کو بھی مثبت انداز میں لیا ہے۔دریں اثنا تحریک الفتح اور اتھارٹی نے کمیونٹی سپورٹ کمیٹی بنانے کی کوششوں کا جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ ماہ دسمبر کے اوائل میں قاہرہ نے حماس اور الفتح کے دو وفود کے درمیان مشاورت کی میزبانی کی تھی۔ ان مذاکرات کا اختتام دونوں تحریکوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے اور غزہ کے امور کے انتظام میں ان کے درمیان مشترکہ ہم آہنگی اور تعاون پر آمادگی سے ہوا تھا۔دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ماضی میں بارہا حماس یا فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کا انتظام سنبھالنے کی اجازت دینے سے انکار کر رکھا ہے۔نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی بھی دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر پہلے مرحلے میں جنگ بندی ہو جاتی ہے تو غزہ انتظامیہ کا مسئلہ تل ابیب کے لیے ایک مشکل مسئلہ بن جائے گا۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی سے بین الاقوامی اندازوں کے مطابق پوری غزہ کی پٹی میں تقریباً دو تہائی عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوگئی ہیں۔
