بغیر قانونی عمل کےبلڈوزرکاروائی کرنے والے حکام کوسزا دی جا ئے گی
قانون کی پیروی کیے بغیر انہدام پرمتاثرہ خاندان ہوگا معاوضے کا حقدار
نئی دہلی، 13 نومبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے بدھ کو ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف سخت فیصلہ سناتے ہوئے ملک گیر رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جرم کے مجرم یا ملزم کی جائیداد کو مناسب قانونی عمل کی پیروی کیے بغیر توڑپھوڑ کرنے والے افسر کو سزا دی جائے گی ۔جسٹس بی آر گوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے پناہ کے حق کو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت بنیادی حق کا ایک پہلو قرار دیا اور کہا کہ کسی ملزم یا کسی جرم کے مجرم کی رہائشی یا تجارتی جائیداد کو قانون کے مناسب عمل پر عمل کئے بغیر گرایا نہیں جاسکتا۔سرکاری افسران کی جانب سے اس طرح کی من مانی اور جابرانہ کارروائی کے خلاف تفصیلی رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ اہلکاروں کی جانب سے ’بلڈوزر کارروائی‘ کرنا طاقت کے علیحدگی کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہوگی جس کے تحت عدلیہ کو ایسے معاملات پر فیصلہ کرنے کا اختیار سونپا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کی جان، آزادی اور املاک کو من مانے طریقے سے نہیں چھینا جا سکتا۔ امن و امان برقرار رکھنا اور شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔جرم ثابت ہونے تک ملزم کی بے گناہی تصور کرنے کے اصول پر زور دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ مجرموں کو من مانی کی گئی کسی بھی کارروائی کے خلاف قانون کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔ بنچ نے کہا ’’خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو اس طرح بے گھر ہوتے دیکھنا کوئی خوشگوار منظر نہیں ہے۔‘‘عدالت عظمیٰ نے کہا کہ افسران عدلیہ کے ذریعہ انجام دئے جانے والے کاموں کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے اور شہریوں کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کام نہیں کر سکتے۔عدالت نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو کسی شخص کو مجرم قرار دینا شروع کر دے تو یہ ’’مکمل طور پر غیر آئینی‘‘ ہو گا۔ ایسے معاملات میں غیر مجاز تعمیرات ہو سکتی ہیں جن پر سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے کہا کہ کسی بھی مکان یا تجارتی املاک کو گرانے سے پہلے متعلقہ افسران کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے۔ بنچ نے کہا کہ گھر کی تعمیر خاندان کے سالوں کے خوابوں، امنگوں اور اجتماعی امید کا نتیجہ ہوتی ہے۔شہریوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے عدالت نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت ہدایات جاری کیں کہ مکمل انصاف کو یقینی بنانے کے لیے انہدام کی کارروائی سے قبل اس شخص کو 15 دن کا نوٹس دیا جائے جس میں غیر مجاز تعمیر کی نوعیت اور حد کا ذکر کیا گیا ہو۔عدالت نے حکومتی افسران کی طرف سے کی گئی اس طرح کی کارروائی کی تفصیلات دینے کے لیے ڈیجیٹل پورٹل بنانے کی بھی ہدایت کی۔عدالت نے کہا کہ انہدام کے حکم پر 15 دنوں تک عمل نہیں کیا جائے گا اور تمام کارروائیوں کی ویڈیو گرافی کی جائے اور ڈیجیٹل پورٹل پر دکھائی جانی چاہیے۔بنچ نے واضح کیا کہ اگر کوئی افسر اس کے (اعلیٰ عدلیہ) کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو توہین عدالت کی کارروائی اور استغاثہ الگ سے چلائی جائے گی۔ ایسے معاملات میں افسران جائیداد کی واپسی اور نقصان کی تلافی کے ذمہ دار ہوں گے۔سپریم کورٹ نے متعلقہ افسر کو سرکلر جاری کرنے کے لیے تمام ہائی کورٹس اور ریاستی حکومتوں کو اپنا حکم بھیجنے کی ہدایت کی۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ جمعیت علمائے ہند اور دیگر کی طرف سے دائر ایک عرضی پر دیا، جس میں تمام ریاستی حکومتوں کی جانب سے من مانی کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگایا گیا تھا۔تاہم عدالت نے واضح کیا کہ ان ہدایات کا اطلاق پبلک اراضی، سڑکوں، آبی ذخائر اور ریلوے سے ملحقہ اراضی پر غیر مجاز تعمیرات پر نہیں ہوگا۔