National

سنکیوکت کسان مورچہ کا الیکشن کمیشن کو کھلا خط، ووٹوں کی آزادانہ اور شفاف گنتی کا مطالبہ

112views

نئی دہلی: سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے اتوار کو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں اس پر زور دیا کہ وہ لوک سبھا انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی آزاد اور شفاف گنتی کو یقینی بنائے۔ خیال رہے کہ 7 مراحل میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہونے جا رہی ہے۔

ایس کے ایم، جس نے اب منسوخ شدہ زرعی قوانین کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی تھی، نے ایک کھلے خط میں کہا کہ اسے ووٹوں کی گنتی کے عمل میں چھیڑ چھاڑ کا خدشہ ہے۔ ایکس کے ایم نے کہا، ’’ہندوستان بھر کے کسانوں کی طرف سے، ہم 4 جون 2024 کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی کے عمل میں کسی بھی قسم کے چھیڑ چھاڑ کے بارے میں اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہیں، تاکہ موجودہ حکومت کو برقرار رکھنے میں مدد کرنے کے لئے عوام کے فیصلے کو پلٹنے کی جانب توجہ مبذول کرائی جا سکے۔‘‘

ایس کے ایم کے خط میں کہا گیا، ’‘پچھلے انتخابات کے برعکس ہندوستان کے کسانوں نے بی جے پی کی انتخابی مہم کا خاص طور پر ایس کے ایم کے ساتھ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) اور قرض کی معافی کے حوالے سے تحریری معاہدے کو نافذ کرنے میں اس کی دھوکہ دہی کے خلاف اور اس کی کارپوریٹ پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کے لئے براہ راست احتجاج کیا گیا تھا۔‘‘

چالیس سے زیادہ ہندوستانی کسان یونینوں کی نمائندہ تنظیم ایکس کے ایم نے کہا، وسیع پیمانے پر اور پرامن احتجاج نے کسانوں، مزدوروں اور معاشرے کے تمام غریب طبقات کو اپنی روزی روٹی کے مسائل اٹھانے اور جمہوریت، سیکولرازم اور وفاقیت کے آئینی اصولوں کا دفاع کرنے میں مدد فراہم کی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ٹریڈ یونینوں اور دیگر طبقات کی فعال حمایت کے ساتھ 13 ماہ سے جاری کسانوں کی جدوجہد میں 750 سے زیادہ کسانوں کی موت ہوئی۔

ایس کے ایم نے کہا، ’’بی جے پی نے کسانوں کو غیر ملکی دہشت گردوں اور خالصتانیوں کی جانب سے مالی امداد حاصل کرنے والے غدار کہہ کر زہر اگلا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے سرکردہ رہنماؤں نے انتخابات کے دوران بڑی اقلیتی برادری کے خلاف مسلسل نفرت انگیز تقاریر کر کے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ اور ہندوستان کے آئین کی خلاف ورزی کی۔

ایس کے ایم نے کہا، ’’اس نے جان بوجھ کر ہم آہنگی والی سماجی زندگی کو تباہ کرنے کے مقصد سے گالی گلوچ کا استعمال کیا۔ سیکولرازم کے آئینی اصول پر حملہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ تعزیری کارروائی کرتے ہوئے نریندر مودی سمیت قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 6 سال کی پابندی عائد کرے۔‘‘

ایس کے ایم نے مزید کہا، ’’بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے بے عملی کا خاموش راستہ اختیار کیا، کارروائی میں تاخیر کی اور بالآخر قانون شکنی کرنے والوں کو ‘مشورہ’ دے کر پلہ جھاڑ لیا۔ اس طرح الیکشن کمیشن کی اپنی آئینی ذمہ داری کو نبھانے میں ناکامی نے بی جے پی کے منقسم نظریہ کو انتخابات کے دوران بڑے پیمانے پر لوگوں پر اثر انداز ہونے کا موقع دیا۔‘‘

کھلے خط میں کہا گیا، ’’وزیر اعظم کو کنٹرول کرنے میں ناکامی نے لوگوں کے ذہنوں میں سنگین شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں کہ الیکشن کمیشن پورے انتخابی عمل کو اقتدار میں رہنے کی کوششوں میں بی جے پی کے حق میں ہے۔‘‘ ایس کے ایم نے پریس کانفرنس کے انعقاد اور پولنگ ڈیٹا فراہم کرنے میں شفافیت کو یقینی نہ بنانے کا بھی الزام لگایا۔ اس نے کہا کہ فراہم کردہ اعداد و شمار میں سنگین تضادات ہیں اور ‘نگران حکومت’ نے دہلی کے منتخب وزیر اعلیٰ کو الیکشن کمیشن کی پیشگی اجازت کے بغیر پری پول اپوزیشن اتحاد کو غیر فعال کرنے کے لئے گرفتار کر لیا۔

ایس کے ایم نے مزید لکھا، ’’اپوزیشن جماعتوں کے بینک کھاتوں کے لین دین پر پابندی کے وقت بھی الیکشن کمیشن خاموش رہا۔ پولیس اور انٹیلی جنس بیورو نے پنجاب کے کسان لیڈروں کو بھی نشانہ بنایا جو بی جے پی کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے۔ الیکشن کمیشن سے گزارش ہے کہ وہ طریقہ کار اور قواعد کے مطابق ووٹوں کی آزادانہ اور شفاف گنتی کو یقینی بنائے۔ ووٹوں کی درست تفصیلات وقتاً فوقتاً عوام کے ساتھ شیئر کرے، تاکہ کسی قسم کی بے ضابطگی کا شبہ نہ ہو۔‘‘

ایس کے ایم نے کہا، ’’تمام خلاف ورزیوں کو روکا جانا چاہیے اور ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ براہ کرم تمام الیکشن ریٹرننگ افسران کو ہندوستان کے کسانوں کی ان تشویشوں سے آگاہ کریں۔‘‘ مورچہ نے کہا، ’’آخر میں ہم ایک بار پھر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کسانوں اور ملک کو نقصان پہنچائے۔ لوگوں کو یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ فراہم کریں کہ کسی بھی حلقے میں کسی بھی نامناسب طرز عمل سے ان کے عوامی مینڈیٹ کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔‘‘

Follow us on Google News