
32views
اب تک آٹھ درخواستیں دائر
نئی دہلی ، 7 اپریل:۔ (ایجنسی) سپریم کورٹ نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ وقف ترمیمی قانون 2025 کو چیلنج کرنے والی سبھی درخواستوں کو مناسب وقت پر سماعت کے لیے غور کرے گا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بینچ کے سامنے سینئر وکلاء - کپل سبل اور اے ایم سنگھوی نے یہ معاملہ اٹھایا۔ یہ وکلاء بعض درخواست گزاروں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ وکلا نے عدالت عظمیٰ سے معاملے کی فوری سماعت کی درخواست کی۔ بینچ میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن بھی شامل تھے، جنہوں نے کہا کہ یہ درخواستیں ’’مناسب وقت پر‘‘ سماعت کے لیے لی جائیں گی۔ سپریم کورٹ میں دائر متعدد درخواستوں میں وقف (ترمیمی) بل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے، جسے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے 5 اپریل کو منظوری دی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اب تک کم از کم 8 عرضیاں داخل کی جا چکی ہے۔ پہلی عرضی اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اسدالدین اویسی نے داخل کی تھی، ان کے بعد کانگریس کے رکن پارلیمنٹ محمد جاوید ، عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان اور اے پی سی آر (ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس ) این جی او نے بھی اس متنازع ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ وہیں تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے بھی سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کے توسط سے اس ایکٹ کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے کپل سبل نے اس معاملے کی جلد سماعت کا مطالبہ کیا۔ جمعیت علمائے ہند نے اپنی عرضی میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 "مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کی خطرناک سازش ہے۔‘‘ دائر کی گئی درخواست میں جمعیت نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’یہ قانون بھارت کے آئین پر براہ راست حملہ ہے، جو شہریوں کو مساوی حقوق اور مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے۔‘‘ جمعیت علماء ہند نے ایک پریس ریلیز میں کہا: ’’یہ بل (جو اب قانون بن چکا ہے) مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھیننے کی خطرناک سازش ہے، اسی لیے ہم نے سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کیا ہے۔ جماعت کے ریاستی یونٹس بھی اپنے اپنے ہائی کورٹس میں اس قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کریں گے۔‘‘ اس قانون کے خلاف ’’ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس‘‘ اور ’’سمستھا کیرالہ جمعیت العلماء‘‘ جیسی تنظیموں نے بھی سپریم کورٹ میں رِٹ پٹیشنز دائر کی ہیں۔درخواستوں میں عدالت سے یہ ہدایت بھی طلب کی گئی ہے کہ اس قانون کو آئین کی دفعات 14، 15، 21، 25، 26، اور 300-اے کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔ ساتھ ہی، درخواست گزاروں نے مرکز اور وزارت قانون و انصاف کو اس قانون کے نفاذ سے روکنے کی بھی درخواست کی ہے۔
