
صدر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی دردانہ قاسمی کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی09 نومبر (راست) ۔ادارہ ترقیء اردو جارکھنڈ کے زیر اہتمام عالمی یوم اردو کے حوالے سے ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر ادارہ کے صدر ڈاکٹر وکیل احمد رضوی نے کہا کہ محض کوئی مخصوص یوم منانا ہمارا مقصد نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔انہوں نے اس موقع پر اردو کے قارئین کی گھٹتی ہوئی تعداد پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی حالت برقرار رہی تو اہل زبان اور اہل علم کا شمار انگلیوں پر کیا جانے لگے گا ۔ لہذا مادری زبان سے محبت کرنے والوں کو اس جانب کوئی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ادارہ کے سکریٹری عزیر حمزہ پوری نے کہا کہ اردو کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند تحریک اور مہم چلائی جانی چاہیے۔ سرکاری اعانت کے سہارے کوئی کام کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس موقع پر جناب عرش اعظم نے کہا کہ اردو کو بحیثیت مادری زبان سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو تیز کرنا چاہیے یہ سماجی اور تہذیبی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دینی خدمت بھی ہوگی ۔چونکہ ہمارا پورا دینی سرمایہ عربی اور فارسی سے منتقل ہو کر اردو میں آ چکا ہے اور اردو دشمن عناصر اس کی جڑ کھودنے میں مصروف ہیں، اور ہم خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال رکھنے کا فیصلہ سنائے جانے پر تمام حاضرین مجلس نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور اسے ایک منصفانہ فیصلہ قرار دیا ایڈووکیٹ فہد علام نےکہا کہ اس فیصلے نے بہت سارے راستے ہموار کر دیے ہیں ۔حتمی فیصلہ کے لیے بنائی گئی سہ رکنی کمیٹی بھی اب اس کے اقلیتی کردار کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔اس موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سابق صدر شعبۂ اردو محترمہ دردانہ قاسمی کے سانحہ ارتحال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کے ذریعے اردو کے لیے کئے گئے کاموں اور ان کی تحقیقی و تصنیفی خدمات کا ذکر پوری تفصیل کے ساتھ کیا گیا ۔ نشست میں موجود اے علام سنیر ایڈووکیٹ جھارکھنڈ ہائی کوٹ نے کہا کہ مرحومہ میرے بڑے بھائی پروفیسر ابو الکلام قاسمی مرحوم کی اہلیہ تھیں اور وہ پوری زندگی اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہ کر ادبی اور علمی خدمات انجام دیتی رہیں۔ مرحومہ تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے تصنیف و تالیف کے کاموں میں بھی منہمک رہا کرتی تھیں ۔موصوفہ اردو رسالہ “امروز “علی گڑھ کی مدیر ہ بھی تھیں اور بڑے کامیاب طریقے سے اس علمی تحقیقی اور معیاری جریدہ کی اشاعت کے فرائض کو انجام دے رہی تھیں ۔ کڈنی کی شکایت ہونے کی وجہ سے وہ ڈائلیسس پہ چل رہی تھیں۔ وہ کم عمری میں ہی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ زینہ بزینہ ترقی پاتے ہوئے یونیورسٹی پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی کرسی پر فائز ہوئیں مرحومہ دردانہ قاسمی نے رشید احمد صدیقی پر تحقیقی کام کیا اور پروفیسر سجاد حیدر یلدرم پر درجنوں معیاری و تحقیقی مضامین لکھے ۔انہوں نے 40 سال تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دییے ،اور دیگر انتظامی امور کو بھی نبھایا۔ انہوں نے عبداللہ گرلز کالج کے لئے بھی کافی دنوں تک انچارج کی حیثیت سے کام کیا اس کے علاوہ انتظامی امور کو بھی سنبھالا اور بہترین خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 70 سال کی عمر میں وفات پائی اور گزشتہ2 نومبر 2024 کو اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔نشست کے آخر میں مرحومہ کے لیے تمام شرکانے اجتماعی دعائے مغفرت کی اور اسی پر نشست کا اختتام ہوا ۔اس موقع پر خصوصی طور سے جناب معین الدین محمد امان اللہ، شکیل احمد، شہباز شاہین، محمد احتشام ،مبین احمد،شمیم خان،ایڈوکیٹ فیصل علام، اور محمد ممتاز وغیرہ نے شرکت فرمائی اور مرحومہ کو خراج عقیدت پیش کیا ۔
