نیپالی شہریوں کا خیال ہے کہ منتخب سیاست دان اور حکمران ان کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اقتدار میں دلچسپی رکھتے ہیں اسی لیے وہ ملک میں جمہوری نظام کی بجائے دوبارہ بادشاہت کا مطالبہ کررہے ہیں نیپالی شہریوں کا ملک میں جمہوریت کی بجائےبادشاہت کے نظام کا مطالبہ سولہ سال قبل نیپال میں اس وقت کے بادشاہ گیانندرا شاہ کو تخت چھوڑنے اور ایک جمہوریہ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا اب انہیں پھر سے واپس لانے کے لیے ملک میں احتجاج کی ایک نہیں لہردیکھنے میں آ رہی ہے۔
ہمالیہ کی ریاست نیپال کے دارلحکومت میں ایک بار پھراحتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس بار مظاہرین گیانندرا شاہ کو بادشاہ کے طور پر بحال کرنے کا اورہندو مذہب کوریاستی مذہب کے طور پرواپس لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شاہ کے حامی گروپس ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر کرپشن اور حکومتی ناکامی کا الزام لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ سیاستدانوں سے مایوس ہیں۔ گزشتہ ماہ کھٹمنڈو میں ایک ریلی میں ”بادشاہ واپس آجاؤ، ملک کو بچاؤ۔ ہمارے پیارے بادشاہ زندہ باد، کے نعرے لگائے گئے۔
موجودہ نظام کی طرف سے بڑھتی ہوئی مایوسی کے باعث تبدیلی کا مطالبے اور بادشاہت کے حامیوں کی ریلیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ لوگ گھروں اوردکانوں پرسابق بادشاہ اور ان کے آباؤ اجداد کے پورٹریٹ آویزاں کر رہے ہیں۔ گیانندرا بغیر ایگزیکٹو اورسیاسی اختیارات کے دوہزار پانچ تک ملک کے آئینی سربراہ تھے ، تاہم اقتدار پرپوری طرح قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے حکومت اور پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے سیاستدانوں اورصحافیوں کو جیلوں میں ڈالا اور مواصلاتی نظام منقطع کروا دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔ گیانندرا نے ملک پر حکمرانی کے لیے فوج کا استعمال کیا۔
احتجاج میں شامل ہزاروں مظاہرین نے دوہزارچھ میں گیانندرا کو مجبور کر دیا کہ وہ اقتدار سے علیحدہ ہو جائیں اور اختیارات پارلیمنٹ کے حوالے کر دیں اور دو سال بعد پارلیمنٹ نے بادشاہت کو ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا جس کے بعد گیانندرا نے شاہی محل چھوڑ دیا اور ایک عام آدمی کی زندگی بسر کرنے لگے۔
نیپالی شہری جمہوری نظام سے بددل کیوں؟
لیکن اب بہت سنے نیپالی شہری جمہوری نظام سے مایوس نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نظام سیاسی استحکام لانے میں ناکام رہا ہے۔ یہ نیپالکے باشندے ملک کی معاشی صورتحال اور کرپشن کی ذمہ داری کا الزام بھی جمہوری حکومت پر عائد کررہے ہیں۔ اٹھائیس مئی دوہزارآٹھ کو بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے نیپال میں تیرہ حکومتیں بنی ہیں۔ بہت سے نیپالیوں کا خیال ہے کہ منتخب سیاست دان ان کے مسائل حل کرنے سے زیادہ اقتدار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کھٹمنڈو کے ایک تجزیہ کار دھروبا ہری ادھیکاری کہتے ہیں کہ ان ہی حالات کے سبب اب لوگوں نے سوچنا شروع کردیا ہے کہ شاید بادشاہت ہی ان کے لیے بہتر نظام ہے۔ لیکن یہ تحریک اتنی چھوٹی ہے کہ کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے۔
پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین ربیندرا مشرا کہتے ہیں، ”میرےخیال میں یہ بہت حد تک ممکن ہے کیونکہ ملک میں اس ایجنڈے کے لیے حالات اتنے سازگار پہلے کبھی نہیں تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”اگر ہم اس ملک میں بادشاہت کا نظام بحال نہیں کر سکتے، تواس ملک میں نوجوانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا یہاں تک کہ خود ملک کا وجود بھی خطرے میں پڑجائے گا۔‘‘
سابق نیپالی بادشاہ کا صورتحال پرردعمل؟
خود گیانندرا نے اس تحریک پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی دستبرداری کے بعد سے ہی سیاست سے دور ہیں اور بمشکل ہی کسی عوامی مقام پردکھائی دیتے ہیں ۔
نیپال کی بادشاہت کی جانب سے انیس سو نوے تک سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت نہیں تھی ، جمہوریت کی حامی تحریک نے انتخابات کرائے اوربادشاہت کو ایک رسمی کردار تک محدود کر دیا۔ گیانندرا دوہزارایک میں اپنے بڑے بھائی بادشاہ بیراندرا اور ان کے خاندان کےشاہی محل میں قتل کے بعد اقتدار میں آئے تھے ياد رہے کہ نیپال میں عوام بادشاہ کو دیوتا مانتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں لیکن شاہ گیانندرا عوام میں زیادہ مقبول نہیں وجہ غالباً یہ کہ وہ عوامی حکومت کے حق میں نہیں رہے ہیں۔