نئی دہلی، 11 دسمبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے جمعرات کو سابق آئی پی ایس افسر سنجیو بھٹ کو1996 کے منشیات پلانٹ کرنے کے معاملے میں دی گئی 20 سال کی سزا کو معطل کرنے سے انکار کر دیا۔جسٹس جے کے ماہیشوری اور وجے بشنوئی کی بنچ نے جمعرات کو بھٹ کی عرضی پر سماعت سے انکار کر دیا، جس سے 2024 میں گجرات کی ایک عدالت کے ذریعہ این ڈی پی ایس ایکٹ اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت سنائی گئی سزا کو برقرار رہی۔سماعت کے دوران بھٹ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی کہ سابق آئی پی ایس افسر پہلے ہی سات سال سے زیادہ جیل میں گزار چکے ہیں اور انہیں منشیات کی غیر تجارتی مقدار رکھنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے، ریاست کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ منندر سنگھ نے کہا کہ یہ واضح طور پر سازش کا معاملہ ہے اور کہا، “سازش رچی گئی تھی، افیون پلانٹ کی گئی تھی اوربرآمدگی ایک کلو سے زیادہ تھی۔”دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے سزا معطل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔یہ کیس 1996 کا ہے، جب راجستھان سے تعلق رکھنے والے وکیل سومیر سنگھ راجپوروہت کو بناسکانٹھا پولیس نے پالن پور کے ایک ہوٹل کے کمرے سے مبینہ طور پر افیون برآمد ہونے کے بعد گرفتار کیا تھا۔بھٹ اس وقت پالن پور میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تھے۔ بعد میں بری ہونے والے راجپوروہت نے بھٹ اور دیگر افسران کے خلاف جائیداد کے تنازعہ کی وجہ سے انہیں جھوٹا پھنسانے کے لیے ممنوعہ مادہ رکھنے کا الزام لگایا تھا۔بھٹ کو اس معاملے میں 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ 1990 میں پربھاداس ویشنانی کی حراستی موت سے متعلق ایک اور کیس میں بھی عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، اس وقت بھٹ جام نگر میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے۔اسی طرح، اپریل میں، سپریم کورٹ نے حراست میں موت کے مقدمے میں ان کی سزا کو معطل کرنے کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ بھٹ، جو نریندر مودی کی قیادت والی حکومت پر تنقید کے لیے جانے جاتے ہیں، 2015 میں بغیر چھٹی کے مبینہ طور پر غیر حاضری پر آئی پی ایس سے برطرف کر دیا گیا تھا۔اس سے پہلے انہوں نے عدالت عظمیٰ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 2002 کے گجرات فسادات میں گجرات حکومت کی ملی بھگت تھی۔



