نیپال تشدد: وزیراعظم مودی نے نیپال کے عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی
مہاراج گنج، 10 ستمبر (یواین آئی) پڑوسی ملک نیپال میں جاری پرتشدد مظاہروں اور افراتفری کی صورتحال کے پیش نظر ہند-نیپال بین الاقوامی سرحد، سونولی سرحد پر حفاظتی انتظامات کو مزید مضبوط کر دیا گیا ہے۔مقامی انتظامیہ اور محکمہ پولیس نے اعلیٰ سطح پر چوکسی برقرار رکھنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ سرحد پر تعینات افسران اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار رہیں۔نیپال میں مسلسل تیسرے دن جاری احتجاج کے پیش نظر مہاراج گنج انتظامیہ نے سرحد پر حفاظتی انتظامات سخت کر دیے ہیں۔ سرحدی پولیس اسٹیشنوں پر اضافی پولیس دستے تعینات کیے گئے ہیں اور سرحدی علاقے میں ہر سرگرمی پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ انتظامیہ نے تمام متعلقہ اداروں کو شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سرحد پر امن و امان برقرار رکھنے کی ہدایت جاری کی ہے۔نیپال کے بلہیا میں مظاہرین کی طرف سے کسٹم آفس میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد ہند-نیپال سونولی سرحد پر مال بردار گاڑیوں اور سیاحوں کی گاڑیوں کی آمد و رفت مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے پانچ ہزار سے زیادہ ہندوستانی سیاح نیپال میں پھنس گئے ہیں۔ ساتھ ہی مال بردار ٹرکوں کے ڈرائیور بھی سرحد پر پھنس کر اپنے ملک واپس جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیپال کسٹم آفس کی پارکنگ میں پچھلے ایک ہفتے سے پھنسے ٹرکوں اور گاڑیوں کے ڈرائیور انتظامیہ سے مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔سرحد پر ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور سیکورٹی ادارے ہر سرگرمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سرحد پار سے کسی بھی قسم کی بے قابو سرگرمی پر فوری طور پر قابو پالیا جائے گا۔ ٹرک ڈرائیور بھی اپنے پھنسے ہوئے سامان اور گاڑیوں سے پریشان ہیں اور سرحد کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے کہا کہ ہم کئی دنوں سے سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی حالات معمول پر آ جائیں گے اور ہم اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔سرحد پر یہ صورتحال انتظامیہ کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے تاہم چوکسی اور سخت حفاظتی انتظامات کے ساتھ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے بھرپور تیاریاں کی جا رہی ہیں۔مہاراج گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سومیندر مینا نے کہا کہ سونولی سرحد پر ہائی الرٹ ہے اور مشتبہ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اضافی پولیس فورس کو تعینات کیا گیا ہے۔ نیپال کے بلہیا میں مظاہرین کی جانب سے کسٹم آفس میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد سونولی سرحد پر سیکیورٹی ایجنسیاں مکمل چوکس ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے سیلاب سے متاثرہ ہماچل پردیش اور پنجاب کے دورے سے واپسی کے فوراً بعد کل رات دیر گئےسلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی (سی سی ایس) کی میٹنگ کی صدارت کی اور تشدد سے متاثرہ نیپال کی صورتحال پر تبادلہ ٔ خیال کیا۔سی سی ایس کے اجلاس میں نیپال میں بڑھتے ہوئے تشدد کی اطلاعات کے درمیان حالیہ پیش رفت کا جائزہ لیا گیا ، جس کی وجہ سے نوجوانوں سمیت کئی افراد جاں بحق ہو گئے ۔ مسٹر مودی نے ان واقعات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے نیپال کے تمام شہریوں سے امن اور اتحاد برقرار رکھنے کی اپیل کی ۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ، وزیر اعظم نے کہا ، “آج ہماچل پردیش اور پنجاب سے واپسی پر ، سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں نیپال کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ نیپال میں تشدد دل دہلا دینے والا ہے ۔ میں اس بات سے غمزدہ ہوں کہ اتنے سارے نوجوان اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ۔ نیپال کا استحکام ، امن اور خوشحالی ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ میں نیپال میں اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے عاجزی کے ساتھ اپیل کرتا ہوں کہ وہ امن برقرار رکھیں ۔ “مسٹر مودی نے اپنےھمسایہ ملک اوردیرینہ شراکت دار کےتئیں ہندوستان کی تشویش کو اجاگر کرتے ہوئے ہندی اور نیپالی زبان میں بھی اپنے پیغام کا اعادہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ نیپال کا استحکام ، امن اور خوشحالی ہمارے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔سی سی ایس قومی سلامتی اور اسٹریٹجک مفادات سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کے لیے ایک اعلی سطحی حکومتی ادارہ ہے ۔ اگرچہ حکومت نے باضابطہ طور پر ملاقات کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں ، لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ نیپال کی صورتحال پر اعلی سطح پرگہری نظر رکھی جا رہی ہے ۔سوشل میڈیا پر متنازعہ پابندی اور حکومتی بدعنوانی پر بڑھتے ہوئے عوامی احتجاج کی وجہ سے جنرل زیڈ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کی لہر کے بعد پورے نیپال میں کشیدگی میں اضافہ جاری ہے ۔ اس بدامنی کے نتیجے میں ملک بھر میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 400 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں ۔بڑے پیمانے پر مظاہروں اور بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کی وجہ سے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو استعفی دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر حکومت نے سوشل میڈیا پر عاید پابندی ختم کر دی ہے ۔اس کے باوجود ، کئی علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں ، نوجوان مظاہرین سیاسی رہنماؤں سے منظم اصلاحات اور جواب دہی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔



