سپریم کورٹ نے شہریت قانون کی دفعہ ’6A‘ کو برقرار رکھا
جدید بھارت نیوز سروس
نئی دہلی، 17 اکتوبر:۔ (ایجنسی) سپریم کورٹ آف انڈیا نے جمعرات کے روز ایک تاریخی فیصلے میں شہریت قانون 1955 کی دفعہ ’6A‘ کو آئینی قرار دیا ہے۔ یہ دفعہ آسام میں یکم جنوری 1966 سے پہلے آنے والے مہاجرین کو ہندوستانی شہریت دینے کی اجازت دیتی ہے۔ 5 رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کر رہے تھے، نے اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا۔ بینچ کے چار جج، بشمول چیف جسٹس، نے اس فیصلے کی حمایت کی، جبکہ جسٹس جے بی پاردیوالا نے علیحدہ رائے پیش کی۔ یہ دفعہ 1985 میں آسام معاہدے کے بعد قانون کا حصہ بنی تھی، جو کہ اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ 6 سالہ تحریک کے بعد ہوا تھا، جس میں آسام میں بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خصوصاً مہاجرین کو شہریت دینے اور آسام کے ’مقامی‘ باشندوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم سوالات کا جواب دے گا۔ درخواست گزاروں میں آسام پبلک ورکس، آسام سنمیلیتا مہا سنگھا اور دیگر شامل ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام کے لیے الگ شہریت کی کٹ آف تاریخ طے کرنا غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلی مقامی لوگوں کے ثقافتی حقوق، اقتصادی حالات اور سیاسی کنٹرول کو متاثر کرے گی، جو آئین کے آرٹیکل 29 کے تحت محفوظ ہیں۔ سال 2012 میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ دفعہ 6A کی آسام میں خصوصی طور پر اطلاق سے ریاست کی آبادیاتی ساخت میں واضح تبدیلی آئی ہے اور اس سے آسام کے لوگ اپنی ہی ریاست میں اقلیت بن چکے ہیں۔ اس کا ریاست کی معاشی اور سیاسی صورتحال پر منفی اثر پڑا ہے اور یہ آسام کے لوگوں کی ثقافتی بقا اور ملازمت کے مواقع کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دوسری جانب، مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 11 کا حوالہ دیا ہے، جو پارلیمنٹ کو شہریت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے فریقین، بشمول این جی او ‘سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس ‘ نے دلیل دی کہ اگر دفعہ 6A کو کالعدم قرار دیا گیا تو آسام میں کئی دہائیوں سے شہریت کے حقوق رکھنے والے لوگ ’بے وطن‘ ہو جائیں گے اور انہیں غیر ملکی تصور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے 12 دسمبر 2023 کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران مرکز نے کہا تھا کہ ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے غیر قانونی تارکین وطن کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ایسے لوگ خفیہ طور پر ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ مرکز کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ اس پروویژن کے تحت 17,861 لوگوں کو شہریت دی گئی ہے۔ مرکز نے کہا تھا کہ 1966 سے 1971 کے درمیان غیر ملکی ٹریبونل کے حکم کے تحت 32,381 غیر ملکیوں کا پتہ لگایا گیا تھا۔ عدالت نے سوال پوچھا تھا کہ 25 مارچ 1971 کے بعد غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تخمینہ تعداد کتنی ہے۔ اس پر مرکز نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن درست سفری دستاویزات کے بغیر خفیہ طور پر ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ غیر قانونی غیر ملکیوں کا پتہ لگانا، حراست میں لینا اور ملک بدر کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ چونکہ ایسے لوگ ملک میں خفیہ طور پر داخل ہوتے ہیں، اس لیے ملک کے مختلف حصوں میں مقیم ایسے غیر قانونی تارکین وطن کے درست اعداد و شمار جمع کرنا ممکن نہیں۔ درخواستوں میں آسام معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے 1985 میں کی گئی ترمیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔



