جدید بھارت نیوز سروس
دہلی /رانچی ،19؍فروری:اقلیتی (مسلم) طبقہ کے مذہبی مقام، مکان اور دکان مسمار کئے جانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کی ہدایتوں پر اترپردیش ، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، راجستھا، آسام، دہلی وغیرہ ریاستوں سے عمل کرانے کی مانگ کولیکر آمیا تنظیم نے مرکزی وزیر داخلہ ، اقلیتی امور محکمہ کے مرکز ی وزیر ، قومی انسانی حقوق کمیشن ، قومی ااقلیتی کمیشن کو مطالبہ نامہ سونپا۔ تنظیم کے مرکزی صدر ایس علی نے کہا کہ ملک کی ریاستوں جیسے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، راجستھان، آسام، دہلی وغیرہ میں مسلمانوں کے مکانات، دکانیں، مذہبی مقامات کو بلڈوزر سے مسمار کرنے، تجاوزات یا نقشہ نہ پاس کرنے کے الزام میں اکثر واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اکثریتی برادری بھی بغیر نقشہ پاس یا تجاوزات کی زد میں ہے لیکن زیادہ تر معاملات میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ انگریزی میگزین فرنٹ لائن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مکانات کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کیا گیا، ان گھروں میں سے زیادہ تر مسلمانوں اور پسماندہ لوگوں کے تھے۔دوسری طرف اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں پرانے مسلم مذہبی مقامات وغیرہ کے سروے کے نام پر ضلع عدالت میں عرضیاں داخل کرکے اور احکامات لاکر تنازعات پیدا کئے جارہے ہیں۔ایسے میں ریاستوں میں آئینی عہدوں پر فائز کچھ لوگوں اور سرکاری افسران کا رویہ اقلیتی برادری کے معاملات پر ٹھیک نہیں ہے، وہ بغیر سنے براہ راست کارروائی کرتے ہیں، وہیں آئین ہند کے آرٹیکل 14 میں دیئے گئے برابری کے حقوق، آرٹیکل 21 میں دیئے گئے زندگی جینے کے حقوق، آرٹیکل 25، 28، 28 میں دیئے گئے مذہبی آزادی کے حقوق ، مذہبی امور کے انتظام کا حق، تعمیر اور دیکھ بھال ، تشہیر و اشاعت وغیرہ کرنے کا اختیار ہر ہندوستانی شہری کو دیتا ہے۔مذہبی مقامات کے معاملے پر پلیسس آف وورشپ ایکٹ نے بھی مذہبی مقامات کو سیفٹی اور تحفظ فراہم کیا، جس پر سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے اور سپریم کورٹ نے ملک کی عدالتوں کو سروے کرنے یا اہم احکامات دینے سے منع کر رکھا ہے۔
وہیں مسمار کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے گائیڈ لائن جاری کرکے ان پر عمل کرنے کی ہدایت کی ہے ۔اس کے باوجود ریاست اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، آسام، راجستھان، دہلی وغیرہ میں اقلیتی (مسلم) برادری کے مکانات، دکانیں اور مذہبی مقامات کو بغیر نقشہ یا دیگر الزامات لگا کر غیر قانونی/ تجاوزات کی وجہ سے مسمار کرنے کا کام جاری ہے، جس کی وجہ سے ہندوستانی مسلم کمیونٹی میں مایوسی اور غصہ پایا جاتا ہے۔اس دوران آمیا آرگنائزیشن کے مرکزی انچارج ضیاء الدین انصاری، فیروز انصاری شامل تھے۔



