جماعت اسلامی ہند کی جانب سے کل منعقدہ پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی نے مسلم پرسنل لا، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی حکومت کے خلاف جنگی جرائم جیسے مسائل پر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ مسلم پرسنل لا میں آسام اور اتراکھنڈ کی مداخلت پر جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند مسلم شادیوں اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو آسام سرکار کی طرف سے منسوخ کرنے کے فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ فی الحال ریاست میں مسلم شادیوں اور طلاقوں کے لئے مذکورہ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا عمل حکومت کے مجاز قاضیوں ( مسلم علماء) کے ذریعہ انجام پاتا ہے ، لیکن اب آسام کے مسلمانوں کو 1954 کے ’اسپیشل میرج ایکٹ ‘کے تحت اپنی شادیاں درج کرانی ہوں گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ اسلاموفوبک رویے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ گرچہ آسام کی حکومت کہتی ہے کہ اس اقدام کا مقصد چائلڈ میریج ( بچوں کی شادیوں) کو روکنا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ووٹ بینک کی سیاست اور عام انتخابات سے قبل مسلم مخالف سرگرمیاں دکھا کر لوگوں کو پولرائز کرنا ہے۔
اسی کے ساتھ جماعت اسلامی ہند اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ ( یو سی سی ) کے نفاذ کی مخالفت کرتی ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ہر مذہب کے الگ الگ پرسنل لا کی جگہ پر ’ یو سی سی‘ پرسنل لا کا ایک ایسا سیٹ پیش کرے گا جو مذہب کی پروا کئے بغیر ہر شہری پر لاگو ہوگا۔ تمام مذاہب کی لڑکیوں کی شادی کے لئے یکساں عمر، مردوں اور عورتوں کو وراثت کے مساوی حقوق سمیت ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا رجسٹریشن لازمی ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جماعت کا خیال ہے کہ گرچہ ’یو سی سی‘ کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل 44 میں ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے طور پر کیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آئین بنانے والوں نے اسے حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا ، یعنی ’یو سی سی‘ کا نفاذ عوام کی مرضی پر ہونا چاہئے۔
جماعت اسلامی کی قومی سکریٹری رحمت النساء نے کہاکہ جماعت اسلامی ہند حراستی عصمت دری کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جیسا کہ تازہ ترین ’ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ ( این سی آر بی ) کے اعدادو شمار میں انکشاف کیا گیا ہے۔ ’این سی آر بی‘ کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 تا 2022، حراست میں عصمت دری کے 270 سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مجرمین شامل ہیں ، جن میں پولیس اہلکار، سرکاری ملازمین، مسلح افواج کے ارکان کے ساتھ ساتھ جیلوں، ریمانڈ ہومز اور اسپتال کے عملہ شامل ہیں۔ ان عہدوں پر فائز افراد کا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورت کے ساتھ زیادتی کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط قانونی ڈھانچہ اور ادارہ جاتی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو جامع انداز میں حل کرنے کے لئے فوری ایکشن لینا چاہئے۔ اس منفی سماجی طرز عمل میں تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے قانونی اصلاحات ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر تربیت اور جوابدہی کے لئے مضبوط میکانزم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت کا خیال ہے کہ حراستی عصمت دری کی بنیادی وجوہ اور نتائج سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر ضروری ہے۔ لوگوں کو جب تک ’خوف خدا‘ اور ’آخرت میں باز پرس‘ کی اہمیت نہیں سمجھایا جائے گا ، تب تک خواتین کے جنسی استحصال کو روکا نہیں جا سکتا ۔ ہمیں معاشرے کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ اس کا آغاز کم عمری سے ہی ہوجانا چاہئے۔ اسکولوں اور تربیتی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ عصمت دری کرنے والوں کے لئے سخت قوانین، تیز رفتار ٹرائل اور مثالی سزا کے تعین کے ساتھ ہی معاشرے کی اخلاقی اصلاح پر بھی زور دیا جانا چاہئے۔
پریس کانفرنس کے دوران جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم خان نے کہا کہ وزارت برائے اقلیتی امور کے حکم پر مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر جماعت اسلامی ہند اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے پاس فنڈز کی کل دستیابی 30 نومبر 2023 تک 403.55 کروڑ روپے کی لیابلیٹی کے ساتھ 1073.26 کروڑ روپے، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پاس 669.71 کروڑ روپے دستیاب ہیں۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے اب اس سرپلس کو ہندوستان کے ’ کنسولیڈیٹیڈ فنڈ ‘ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جماعت کا خیال ہے کہ یہ اقدام ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک شدید دھچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ہندوستانی مسلم کمیونٹی اقتصادی ترقی اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلی جارہی ہے۔ جبکہ بے شمار ایسے سرکاری اعدادو شمار موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ مسلمان تعلیمی و اقتصادی طور پر پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ اور محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ نے اس کمیونٹی کی بہتری کے لئے مثبت کارروائی ( ریزرویشن) کی سفارش کی ہے۔ اگر حکومت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسی اسکیموں کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو یہ اقلیتی ترقی کے لئے انتہائی ضرر رساں ہوگا جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقے کے لئے مثبت پیش رفت کرے۔
اس دوران انہوں نے پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی ہند کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر جماعت کو گہری تشویش ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ جلد ہی عارضی جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 30 ہزار فلسطینی شہید اور 70 ہزار زخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے 439،000 یعنی تقریبا 70 فیصد مکانوں کو تباہ یا زبردست نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کے 2.2 ملین باشندوں میں سے تقریبا 85 فیصد بے گھر ہوچکے ہیں۔