سیکنڈلز کا سلسلہ جاری، نیتن یاہو کے دفتر کے اندر کیا ہو رہا ہے؟
تل ابیب 13 نومبر (ایجنسی) گزشتہ بعض ہفتوں کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر سے سکینڈلز اور لیکس کا سلسلہ جاری ہے۔ جیسے جیسے غزہ میں جاری جنگ لبنان تک پھیل رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے یکے بعد دیگرے سکینڈلز آ رہے ہیں۔وزیر اعظم کا دفتر اسرائیل کا سب سے اہم دفتر سمجھا جاتا ہے۔ یہیں سے اسرائیل میں قتل، جنگوں، مذاکرات اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے احکامات نکلتے ہیں۔ اس کی تصدیق العربیہ کے مشیر برائے اسرائیلی امور مجدی الحلبی نے کی ہے۔سکینڈلز کا ایک سلسلہ پردے کے پیچھے سے لیک ہوا ہے۔ ان میں سے پہلا سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے بارے میں معلومات کا مجموعہ تھا تاکہ ان کے خلاف اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔ نیتن یاہو کے دفتر کے ایک یا زیادہ ملازمین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے کہ انہوں نے تل ابیب، یروشلم اور دیگر خفیہ مقامات میں وزیر اعظم کے ہیڈ کوارٹرز میں نگرانی کے کیمروں سے معلومات اور تصاویر اکٹھی کی ہیں۔ اس سکینڈل کا مقصد گیلنٹ کا استحصال کرنا اور انہیں دھمکیاں دینا تھا۔اس کا استحصال کرنے کے ان ذرائع میں وہ تصاویر بھی شامل تھیں جن میں سابق وزیر دفاع اور نیتن یاہو کے محافظوں کے درمیان لڑائی دکھائی دے رہی تھی ۔ محافظ گیلنٹ کو اس سکیورٹی سیشن میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں انہیں اصل میں مدعو کیا گیا تھا۔ لیکن محافظوں میں سے ایک اس ڈر سے کہ وہ کہیں ریکارڈنگ کے آلات اپنے ساتھ نہ لے جائیں، گیلنٹ کو اندر نہ آنے کی ہدایت کی۔دوسرا سکینڈل خفیہ مواد اور دستاویزات حاصل کرنے کے علاوہ ایک انٹیلی جنس افسر کے بارے میں حساس مواد رکھنے، اسے بلیک میل کرنے اور اسے خاموش کرانے سے متعلق تھا۔ پولیس کی تحقیقات کے مطابق نیتن یاہو کے چیف آف سٹاف، زاچی برورمین نے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے ایک افسر کو بلیک میل کیا اور اس سے حاصل حساس مواد اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اس سکینڈل کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ 7 اکتوبر کی رات اور اس سے ایک دن پہلے وزیر اعظم اور ان کے دفتر کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔تیسرا سکینڈل پروٹو کول اور ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت میں ترمیم کرنے اور سکیورٹی سیشنز کے دوران سکیورٹی شخصیات اور وزرا کی معلومات اور بیانات چھپانے کی کوشش کے ذریعے سامنے آیا۔ جنگ کے پہلے دنوں میں نیتن یاہو کے دفتر کے ملازمین نے سکیورٹی کے بارے میں بحث کے دوران سکیورٹی شخصیات اور وزرا کی معلومات اور تقریر کو حذف کر دیا تھا۔ ملازمین نے نیتن یاہو کے حق میں پروٹوکول میں بھی تبدیلی کی۔ یہ وزیر اعظم کے سابق ملٹری سیکرٹری تھے جنہوں نے ترامیم اور تبدیلی اور غلط ثابت کرنے کی کوششوں کی اطلاع دی تھی۔
خفیہ دستاویزات
اس کے علاوہ، نیتن یاہو کے سیکورٹی ایڈوائزر کی جانب سے سینسر شپ کی اجازت کے بغیر خفیہ دستاویزات غیر ملکی میڈیا کو لیک کرنے کے معاملے میں چوتھا سکینڈل سامنے آیا۔ وزیر اعظم کے میڈیا ایڈوائزر برائے سیکورٹی امور ایلی وائیڈلسٹائن نے دیگر انٹیلی جنس افسران کے ساتھ مل کر خفیہ دستاویزات تیار کیں جنہیں سنسرشپ نے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی اور انہیں جرمن اخبار بِلڈ کو پیش کیا۔اس کے بعد ان دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ حماس کے سابق رہنما یحییٰ سنوار کے کہے گئے الفاظ تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کو انہوں نے ہی مسترد کر دیا تھا۔ بعد میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ دستاویزات محض حماس کی قیادت میں درمیانی سطح کی ایک سفارش تھی، جس میں پیچیدگیوں کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے تجویز کردہ معاہدے کو قبول کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔تاہم جس نے بھی دستاویزات کو لیک کیا وہ وزیراعظم کے بیانات کو پیش کرنے کے لیے ان کا ایک جزوی کلپ اجاگر کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا جن پر قیدیوں کے اہل خانہ نے اپنی حکومت کی سالمیت کو برقرار رکھنے کیلئے ثالثوں کے ذریعے کی جانے والی پے در پے ڈیل کی پیشکشوں کو مسترد کرنے کا الزام لگایا تھا۔ سوالات اس بارے میں اٹھ گئے تھے کہ مذکورہ مشیر نے حساس اور خفیہ مواد کیسے حاصل کیا۔ خاص طور پر چونکہ یہ دستاویزات شن بیٹ کی نظر میں اشاعت کے لیے ممنوع تھیں۔ یہ دستاویز ظاہر کرتی ہیں کہ انٹیلی جنس کیسے کام کرتی ہے اور کیسے معلومات حاصل کرتی ہے۔ میڈیا ایڈوائزر کو ابھی تک حراست میں لیا گیا ہے اور ان کی قید میں تین دیگر افراد کے ساتھ توسیع کر دی گئی ہے جن کے نام اسرائیلی سنسر شپ نے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ خفیہ انٹیلی جنس سے ہیں۔شن بیٹ جنرل سکیورٹی سروس کیس کی تحقیقات اور معلومات جمع کرنے والی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں شامل تمام ملازمین سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ وہ نیتن یاہو سے اپنے دفتر کے براہ راست انچارج کی حیثیت سے بھی پوچھ گچھ کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو کے دفتر نے اس بات کی تردید کی ہے کہ مشیر نے خفیہ اور حساس اجلاسوں میں شرکت کی ہے حالانکہ تصاویر اور ویڈیوز اس کے برعکس ثابت ہوتی ہیں۔ انہیں خفیہ دوروں اور ملاقاتوں میں وزیر اعظم کے ساتھ جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔انہوں نے عدلیہ پر بھی اپنی تنقید جاری رکھی اور اسرائیلی پریس پر الزام لگایا کہ وہ انہیں اور ان کے دفتر کے ارکان کو وزارت عظمیٰ سے خارج کرنے کے لیے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ا س نے کچھ دن پہلے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں ہر ایک پر کہانیاں بنانے اور جعلی خبریں پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔اسرائیل کے ماہرین نے دیکھا ہے کہ ان تمام مسائل کا تعلق ایک چیز سے ہے اور وہ چیز یہ ہے کہ نیتن یاہو کی 7 اکتوبر کے واقعات اور حماس کے حملے کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ تمام مقدمات کو جوڑنے والی پتلی لکیر اس کی داستان کو پیش کرنے کے لیے حقائق کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔میڈیا اور آگاہی انجینئرنگ کے شعبے کے متعدد ماہرین کا خیال تھا کہ جو لوگ ان چاروں معاملات کی خوبیوں کا بغور جائزہ لیں گے وہ دیکھیں گے کہ نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے تمام حقائق اور پروٹوکول کو باقاعدہ طور پر عمل میں لانے کے لیے ذہین اور منظم کام کیا جا رہا ہے۔