تہران،03اگست(ہ س)۔ایران کے نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تہران کو امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے بالواسطہ رابطے یا مذاکراتی عمل میں شامل ہونے کی کوئی جلدی نہیں۔انہوں نے امریکی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ”امریکہ جب دیگر ممالک کی پرامن نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کی بات آتی ہے، تو کوئی سرخ لکیر تسلیم نہیں کرتا”۔انہوں نے خبردار کیا کہ “واشنگٹن کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اس طرح کی جارحانہ روش اپنا کر دوسروں کی خودمختاری اور سالمیت پر حملہ نہیں کر سکتا”۔خطیب زادہ نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کہا کہ60 فیصد تک افزودہ یورینیم مکمل طور پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی میں ہے۔ایجنسی کے معائنہ کار جلد دوبارہ ایران کا دورہ کریں گے۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے 28 جولائی کو اعلان کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی جوہری توانائی ایجنسی آئندہ دو ہفتوں کے اندر ایران کا دورہ کرے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور ایجنسی کے مستقبل کے تعاون سے متعلق رہنما اصول تیار کیے جا رہے ہیں جو حال ہی میں ایرانی پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے قانون کی بنیاد پر ہوں گے۔ اس قانون کے مطابق اب ایران میں جوہری تنصیبات کے کسی بھی معائنے کے لیے پہلے ایران کی قومی سلامتی کی اعلیٰ کونسل سے منظوری لینا لازمی ہوگا۔اسماعیل بقائی نے ایران کے اس موقف کا اعادہ بھی کیا کہ اگر قومی مفاد کا تقاضا ہوا تو امریکہ کے ساتھ الواسطہ بات چیت دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال امریکہ سے چھٹے مذاکراتی دور کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے۔انہوں نے زور دیا کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، کیونکہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کا رکن ہے۔یہ بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ نے چند دن قبل کہا تھا کہ ایران تکنیکی مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہے۔ایجنسی کا مؤقف ہے کہ اسیجون میں اسرائیلی اور امریکی فضائی حملوں کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات کا دوبارہ معائنہ کرنا چاہیے کیونکہ ان حملوں کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانا اور اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت کو محدود کرنا تھا۔ایران نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا پروگرام خالصتاً پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ایجنسی کو اس وقت ایران میں موجود 400 کلوگرام بلند سطح پر افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے حوالے سے شدید تشویش ہے۔ایران اور امریکہ کے درمیان عْمان کی ثالثی میں اب تک پانچ مرحلوں پر مشتمل مذاکرات ہو چکے ہیں، لیکن جون 2025 میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد بات چیت معطل ہو چکی ہے۔مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ یہ رہی کہ واشنگٹن نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی کا عمل بند کرے جسے تہران نے تسلیم نہیں کیا۔
ہمیں امریکہ سے مذاکرات کی کوئی جلدبازی نہیں ہے:ایران
مقالات ذات صلة



