ہندوستانی ہائی کمیشن پوری طرح سے کام کر رہا ہے اور ہندوستانی شہریوں کو “بغیر کسی رکاوٹ” خدمات فراہم کر رہا ہے
ڈھاکہ، 18 دسمبر (یو این آئی) سینٹر فار انٹیگریٹڈ اینڈ ہولیسٹک اسٹڈیز (سی آئی ایچ ایس) نے جمعرات کو ڈھاکہ، بنگلہ دیش میں ہندستانی ہائی کمیشن کو ملنے والی دھمکی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے “سنگین سکیورٹی کی خلاف ورزی” اور سفارتی تعلقات پر ویانا کنونشن کی “واضح خلاف ورزی” قرار دیا۔سی آئی ایچ ایس نے کہا کہ سفارتی مشنوں کی سلامتی اور سالمیت میزبان ملک کی اٹل ذمہ داری ہے۔ قابل اعتماد سکیورٹی خدشات کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کے طور پر ڈھاکہ میں ہندوستان کے ویزا درخواست مرکز کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔تاہم، ہندوستانی ہائی کمیشن پوری طرح سے کام کر رہا ہے اور ہندوستانی شہریوں کو “بغیر کسی رکاوٹ” خدمات فراہم کر رہا ہے۔ ہندوستانی شہریوں کو جنہیں فوری مدد کی ضرورت ہے انہیں ہائی کمیشن کی آفیشل ویب سائٹ یا اس کی 24/7 ایمرجنسی ہیلپ لائن سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔بنگلہ دیش میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے درمیان، ہندوستان نے بدھ کے روز بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کونئی دہلی میں طلب کرکے ہندوستانی ہائی کمیشن کو ملنے والی دھمکیاں اور بنگلہ دیشی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ہندوستان مخالف بیانات پر سخت سفارتی احتجاج درج کرایا۔ خاص طور پر “کچھ انتہا پسند عناصر کی سرگرمیوں” کے حوالے سے یہ قدم ڈھاکہ میں ہندوستانی مشن کی سیکورٹی کے تعلق سے قومی دارالحکومت کی “سنگین تشویش” کی عکاسی کرتا ہے، جنہوں نے ڈھاکہ میں ہندوستانی مشن کے ارد گرد سیکورٹی صورتحال پیداکرنے کا اعلان کیا ہے۔ایک سرکاری بیان میں، وزارت خارجہ نے کہا کہ ہندوستان توقع کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اپنی سفارتی ذمہ داریوں کو مکمل دیانتداری کے ساتھ پورا کرے گی، خاص طور پر اپنی سرزمین کے اندر کام کرنے والے تمام غیر ملکی مشنوں اور پوسٹوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالے سے۔ میٹنگ کے دوران ہندوستان نے بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو ان پیش رفتوں کے حوالے سے اپنے سنگین تحفظات سے آگاہ کیا۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہندوستان “کچھ حالیہ واقعات کے بارے میں انتہا پسند عناصر کی طرف سے گھڑے جانے والے جھوٹے بیانیے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔”ہندوستان نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے نہ تو واقعات کی جامع تحقیقات کی ہیں اور نہ ہی نئی دہلی کے ساتھ کوئی ٹھوس ثبوت شیئر کیا ہے۔یہ سفارتی طلب اس وقت ہے جب ہندستان نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ان الزامات کو واضح طور پر مسترد کردیا، جن میں کہا گیا تھا کہ ہندوستانی سرزمین بنگلہ دیش کے مفادات کے خلاف سرگرمیوں کیلئےاستعمال ہو رہی ہے۔ ایک بیان میں، وزارت خارجہ نے واضح کیا کہ ہندوستان نے کبھی بھی اپنی سرزمین کو بنگلہ دیش کے دوست لوگوں کے خلاف سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ہے اور اس توقع کا اعادہ کیا ہے کہ محمد یونس کی قیادت میں عبوری حکومت داخلی امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے گی، جس میں فروری میں ہونے والے پرامن انتخابات کو آسان بنانا بھی شامل ہے۔یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب بنگلہ دیش نے اتوار کے روز ڈھاکہ میں ہندوستانی ہائی کمشنر پرنائے ورما کو طلب کیا تھا۔ اس دوران انہیں عبوری حکومت کے ان خدشات سے آگاہ کیا گیا، جنہیں اس نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے “مسلسل اشتعال انگیز بیانات” کے طور پر بیان کیا۔ شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انہیں نئی دہلی میں پناہ ملی ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ کے مطابق، بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم حسینہ کو مبینہ طور پر ایسے بیانات دینے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان کے حامیوں کو آئندہ انتخابات کوکمزور کرنے کے مقصد سے پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر اکساتے ہیں۔ ہندستانی ہائی کمشنر کو یہ بھی بتایا گیا کہ کالعدم عوامی لیگ کے مفرور رہنما اور کارکن مبینہ طور پر ہندستانی سرزمین سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر کے بنگلہ دیش کے سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔بنگلہ دیشی میڈیا آؤٹ لیٹ پرتھم الونے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش نے ہندوستان سے “فاشسٹ دہشت گرد” کے طورپر بیان کردہ لوگوں کو گرفتار کرکے حوالے کرنے کی اپیل کی ہے۔
ہندوستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ عبوری حکومت سے داخلی امن و امان کو یقینی بنانے اور پرامن انتخابات کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی توقع کرتا ہے۔بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وہ ایک پڑوسی ملک کے طور پر ہندوستان سے توقع کرتی ہے کہ وہ (ہندستان) بنگلہ دیش کے عوام کو انصاف اور جمہوری اقدار کے تحفظ میں مدد فراہم کرے۔ جواب میں ہندوستانی ہائی کمشنر نے پرامن انتخابی عمل کے لیے ہندوستان کی حمایت کا اعادہ کیا اور اس سلسلے میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔مزید برآں، بنگلہ دیش نے زور دیا کہ اگر دائیں بازو کی تنظیم انقلاب منچ کے کنوینر شریف عثمان ہادی کی حالیہ شوٹنگ میں ملوث حملہ آوروں کے ہندستان فرار ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو انہیں گرفتار کر کے حوالے کیا جائے۔ جولائی بغاوت کے حامی عثمان ہادی کو گزشتہ جمعہ کو ڈھاکہ میں گولی مار دی گئی تھی اور وہ ابھی تک تشویشناک حالت میں ہیں۔ بنگلہ دیشی میڈیا رپورٹس میں قیاس کیا گیا ہے کہ حملہ آور واقعہ کے بعد ہندستان فرار ہوسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال 5 اگست کو شیخ حسینہ کی سربراہی والی عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے اور یونس کی قیادت والی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ کئی عوامل کی وجہ سے دوطرفہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جن میں اقلیتوں خصوصاً ہندوؤں پر اسلام پسند گروپوں کے مسلسل حملے، عبوری انتظامیہ کے مشیروں کی طرف سے ہند مخالف بیان بازی، پاکستان کے ساتھ ڈھاکہ کی بڑھتی ہوئی قربت اور مبینہ جرائم کے لیے بنگلہ دیش کی حسینہ کی حوالگی کی درخواست پر ہندستان کی خاموشی شامل ہیں۔ عبوری حکومت نے عوامی لیگ پر پابندی بھی لگا دی ہے۔تازہ ترین سفارتی تنازعہ کی فوری وجہ بنگلہ دیش کی نیشنل سٹیزنز پارٹی کے ایک رہنما کا ایک اشتعال انگیز بیان بتایا جارہا تھا، جس میں اس نے کھلم کھلا ہند مخالف قوتوں کو پناہ دینے اور ہندستان کی شمال مشرقی ریاستوں – جنہیں عام طور پر “سیون سسٹرز” کے نام سے جانا جاتا ہے – کو ملک کے باقی حصوں سے الگ کرنے میں مدد کرنے کی دھمکی دی۔ یہ تبصرے طلبہ کی زیر قیادت این سی پی کے رہنما حسنات عبداللہ نے انقلاب منچ کے زیر اہتمام ایک ریلی میں کیے تھے۔عبداللہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “سیون سسٹرز کو ہندوستان سے الگ کیا جائے گا۔” نیز انہوں نے بغیر ثبوت کے الزامات کی تجدید کی کہ ہندوستان طالب علم رہنما عثمان ہادی پر حملے کے ملزمان کی حمایت کر رہا ہے۔ ہندوستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ذریعے دہرایا کہ وہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے اور پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔



