وزیر خزانہ کو یقین دہانی
غزہ کے شہریوں کو حماس سے علیحدہ کرنے کی اسرائیلی منصوبہ بندی، رفح میں انسانی شہر بسانے کی تجویز
تل ابیب 14 جو لا ئی (ایجنسی) اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے حالیہ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے اجلاسوں میں وزیر خزانہ بزلئیل سموٹریچ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر 60 دن کی مجوزہ جنگ بندی پر اتفاق ہو جاتا ہے، تو اس کے خاتمے کے فوراً بعد تل ابیب دوبارہ غزہ پر بھرپور حملہ کرے گا۔اسرائیل کے عبرانی چینل 12 نے بتایا کہ نیتن یاہو نے سموٹریچ کو بتایاکہ ’’جنگ بندی کے بعد ہم غزہ کے شہریوں کو جنوب کی طرف منتقل کریں گے اور شمالی غزہ کا محاصرہ قائم کریں گے‘‘۔ذرائع کے مطابق نیتن یاہو نے بند کمرہ اجلاسوں میں ایک منصوبہ بھی پیش کیا جس کے تحت اسرائیل غزہ کے عام شہریوں کو حماس سے علیحدہ کر کے انہیں جنوبی غزہ کی ایک پٹی میں محدود کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیل کے بقول ایک ’’انسانی ضرورت‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عارضی جنگ بندی کے بعد لڑائی جاری رکھی جا سکے۔"میں ایران کے مسئلے میں مصروف تھا"نیتن یاہو نے سموٹریچ سے مزید کہا کہ وہ اس وعدے پر قائم رہیں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ گذشتہ ماہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کی تیاریوں کے سبب وہ وزیر خزانہ کی توقعات کے مطابق حماس کو نقصان نہیں پہنچا سکے تھے۔انہوں نے کہاکہ ’’اب تک میں ایران کے معاملے میں مصروف تھا، لیکن اب مکمل طور پر اس بات پر توجہ دوں گا کہ فوج میری ہدایات پر عمل کرے‘‘۔ادھر اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد غزہ پر ’’مکمل طاقت‘‘ کے ساتھ دوبارہ حملہ کرنے کی گارنٹی دیں۔رفح میں انسانی شہر کی تعمیر پر اختلافدوسری جانب اسرائیلی چینل 14 نے انکشاف کیا کہ رفح میں انسانی شہر کی تعمیر سے متعلق فوج کی نئی رپورٹ نے کابینہ میں ناراضی کو جنم دیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد میں ایک سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوج سے کہا ہے کہ وہ رفح منصوبے کے لیے ایک "مناسب وقت کا خاکہ" پیش کرے۔"ہم نے معاہدہ قبول کیا، حماس نے رد کر دیا"اتوار کے روز نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ تل ابیب نے امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف کی جانب سے پیش کردہ اور ثالثوں کی جانب سے کی گئی ترامیم کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کو قبول کر لیا ہے، لیکن حماس نے اس سے انکار کر دیا۔نیتن یاہو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ’’حماس مسلسل ڈیل کی شرائط کو مسترد کر رہی ہے اور غزہ میں اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے دوبارہ ہتھیار حاصل کرنا چاہتی ہے، جو ہمارے لیے کسی طور قابل قبول نہیں‘‘۔انہوں نے مزید زور دیتے ہوئے کہا: ’’ہم اپنے یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے پرعزم ہیں، لیکن ساتھ ہی ہم حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے اور اس کے خطرات کا خاتمہ کرنے کے اپنے وعدے پر بھی قائم رہیں گے‘‘۔"اگلے چند گھنٹے فیصلہ کن"
فلسطینی حکومتی میڈیا مرکز کے ڈائریکٹر محمد ابو الرب نے العربیہ کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے دی جانے والی تجاویز کا اصل مقصد جنگ کو طول دینا ہے۔العربیہ سے بات کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ حماس نے واضح طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کو موراگ محور پر موجودگی کی اجازت نہیں دے گی، جبکہ ثالث مذاکراتی عمل کو ناکامی سے بچانے کے لیے متوازن تجاویز تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ثالث اس بات کے منتظر ہیں کہ اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی کے دوران فوج کی نئی تعیناتی کی تفصیلی نقشے فراہم کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ چند گھنٹے یا تو مذاکرات میں پیش رفت لائیں گے یا عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو جائے گا۔معاہدہ اسی ہفتے ممکنادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششیں رواں ہفتے کے دوران کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گی۔ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا: ’’ہم بات چیت کر رہے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں معاملہ طے پا جائے گا‘‘۔یاد رہے کہ امریکہ 60 دن کی جنگ بندی کے اس منصوبے کی حمایت کر رہا ہے، جس کے تحت غزہ میں قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیلی فوج کا مخصوص علاقوں سے انخلا، اور مذاکرات کا دوبارہ آغاز شامل ہے، جن کا مقصد اس تنازع کو مستقل طور پر ختم کرنا ہے۔



