پیرس،26جولائی(ہ س)۔پیرس، لندن اور برلن نے جمعہ کو ایک مشترکہ بیان میں غزہ میں انسانی تباہی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔تینوں یورپی ممالک نے ایک بیان میں اسرائیلی حکومت سے امداد کی فراہمی پر عائد پابندیوں کو فوری طور پر ہٹانے اور اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظیموں کو قحط سے لڑنے کے لیے اپنا کام کرنے کی فوری اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کا احترام کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔اسی تناظر میں کینیڈا نے جمعہ کو اسرائیلی حکومت کی اس ناکامی کی مذمت کی جسے وزیر اعظم مارک کارنی نے غزہ میں انسانی بحران قرار دیا۔ کارنی نے اسرائیل پر جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں کینیڈا کی مالی امداد کی سویلین تک رسائی کو روک کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔کارنی نے “ایکس” پر لکھا کہ کینیڈا تمام فریقوں سے فوری جنگ بندی کے لیے نیک نیتی سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہم حماس سے تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کرنے اور اسرائیلی حکومت سے مغربی کنارے اور غزہ کی علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کے اپنے مطالبات کو دہراتے ہیں۔ایک متعلقہ پیش رفت میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ بے گناہ جانوں کی حفاظت اور غزہ کے باشندوں کی مصیبت اور بھوک کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس صورتحال کو “انسانی بحران” قرار دیا اور مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے امداد کی روک تھام اور پانی اور خوراک حاصل کرنے والے شہریوں کے قتل کو نظر انداز کیا جا سکتا ، نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ 6 ماہ سے 5 سال کی عمر کے غزہ کے ایک چوتھائی بچے اور گزشتہ ہفتے ان کے کلینکس میں معائنہ کے لیے آنے والی حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین غذائی قلت کا شکار تھیں۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بے مثال سطح پر پہنچ گیا ہے۔ مریض اور خود صحت کے شعبے کے کارکن بھوک کا شکار ہیں۔غزہ شہر میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے کلینک میں پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کیرولین ولمن نے بتایا کہ صحت کا عملہ اب روزانہ غذائی قلت کے 25 نئے کیسز درج کر رہا ہے۔ اس کلینک میں 18 مئی کے بعد سے غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 4 گنا بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح 3 گنا بڑھ گئی ہے۔ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے زور دیا کہ یہ ایک جان بوجھ کر مسلط کیا گیا قحط ہے جو اسرائیلی حکام نے جاری نسل کشی کی مہم کے حصے کے طور پر پیدا کیا ہے۔ مدد حاصل کرنے کی شدت سے کوشش کرنے والوں کو بھوک دینا، قتل کرنا اور زخمی کرنا ناقابل قبول ہے۔تنظیم کی ترجمان ایون ایکرٹ نے وضاحت کی کہ غزہ کی پٹی میں رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے عملے نے گزشتہ ہفتے موبائل علاج کے غذائی مراکز کے پروگراموں میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 600 نئے بچے رجسٹر کیے ہیں۔ اس دوران تنظیم نے نشاندہی کی ہے کہ خوراک کی تقسیم کے مقامات پر حملے جاری ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے سپانسر شدہ تقسیم کا طریقہ کار بار بار ان لوگوں کو قتل کر رہا ہے جو شدت سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے معاون میڈیکل کوآرڈینیٹر محمد ابو مغیصب نے کہا کہ یہ خوراک کی تقسیم انسانی امداد نہیں ہے۔ یہ دن دہاڑے اور ہمدردی کی آڑ میں کیے گئے جنگی جرائم ہیں۔ جو لوگ غزہ ہیومینیٹی فاؤنڈیشن کے خوراک کی تقسیم کے آپریشنز کا رخ کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک بوری آٹا حاصل کرنے کے ان کے امکانات اتنے ہی ہیں جتنے سر میں گولی لگنے کے بعد ان کے وہاں سے نکلنے کے۔
فرانس،برطانیہ اور جرمنی نے غزہ میں انسانی تباہی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا
مقالات ذات صلة



