حماس نے قرارداد مسترد کردی
نیویارک، 19 نومبر (یو این آئی) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے دیگر ارکان کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اُن کی انتظامیہ کے ’غزہ منصوبے‘ کی منظوری دی، جس کا مقصد غزہ کو طویل المدتی استحکام کی طرف لے جانا ہے، انہوں نے اس ووٹ کو ’اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منظوریوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں صدر ٹرمپ نے چین اور روس کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے امریکی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، حالانکہ دونوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’سلامتی کونسل کی ناقابلِ یقین ووٹنگ پر دنیا کو مبارک ہو، جس نے بورڈ آف پیس کو تسلیم اور منظور کیا ہے، جس کی سربراہی میں خود کروں گا‘، انہوں نے اس اقدام کو تاریخی اہمیت کا لمحہ قرار دیا۔نیویارک میں پیر کی شام منظور کی جانے والی اس قرارداد میں ایک کثیر مرحلہ فریم ورک شامل ہے، جس میں بورڈ آف پیس کا قیام اور غزہ میں ایک عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی شامل ہے، اس فورس کا کام جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے کی نگرانی کرنا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب منتقلی میں مدد فراہم کرنا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کونسل سے باہر اُن ریاستوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس منصوبے کی حمایت کی جن میں قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکیہ اور اردن شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں بورڈ آف پیس کی مکمل رکنیت کا اعلان کیا جائے گا، اگرچہ وہ پہلے ہی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر (جنہوں نے اس تصور کی تجویز دی تھی) کا ممکنہ رکن کے طور پر ذکر کر چکے ہیں۔اگرچہ روس اور چین نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، مگر دونوں نے سخت اعتراضات اٹھائے۔اقوامِ متحدہ میں روس کے مندوب واسیلی نیبینزیا نے کہا کہ قانونی امور سے متعلق اہم نکات نظر انداز کر دیے گئے ہیں اور خبردار کیا کہ آئی ایس ایف ایسا بااختیار نظر آتا ہے کہ وہ رام اللہ کی پوزیشن یا رائے کی پروا کیے بغیر مکمل خودمختاری کے ساتھ عمل کر سکتا ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ یہ قرارداد نوآبادیاتی طرزِ عمل کی یاد دلاتی ہے، جو برطانوی مینڈیٹ کے دور میں دیکھنے میں آتے تھے، جہاں فلسطینیوں کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔چین کے مندوب فو کونگ نے کہا کہ متن کئی پہلوؤں سے کمزور اور انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کے لیے پیش کیے گئے گورننس انتظامات پر تنقید کی، اور کہا کہ اس میں فلسطین بمشکل دکھائی دیتا ہے اور فلسطینی خودمختاری کو مکمل طور پر نہیں سراہا گیا۔اگرچہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کیا، لیکن حماس نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا کیونکہ اس کے مطابق یہ فلسطینیوں کے مطالبات اور حقوق کا احترام نہیں کرتی۔
اپنے بیان میں گروپ نے کہا کہ ’یہ قرارداد ہمارے فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق اور مطالبات کے معیار پر پوری نہیں اترتی‘۔بیان میں اس بین الاقوامی فورس کے قیام پر بھی اعتراض کیا گیا جس کا مشن ’فلسطینی گروہوں کے غیر مسلح کرنے‘ کو شامل کرتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد غزہ کی پٹی پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرتی ہے جسے ہمارے عوام، اس کی مزاحمتی قوتیں اور گروہ مسترد کرتے ہیں۔



