وزیر اعظم مودی کی کابینہ نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں کہا گیا کہ سن 1947 میں تو ‘ملک کے جسم کو آزادی ملی’ تھی جبکہ بھارتی ‘روح’ کو 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاح کے بعد آزادی ملی، جس سے روحانی سکون کا احساس ہوا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ نے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر تعمیر ہونے والے رام مندر کے افتتاح کے بعد انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں اس عظیم کارنامے کے لیے ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے۔
کیا ایودھیا میں نئی مسجد بن بھی سکے گی؟
مرکزی کابینہ نے بدھ کو یہ قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا ہے کہ سن 1947 میں تو محض ”ملک کے جسم کو آزادی ملی تھی” تاہم ”اس کی روح کی پران پرتیشٹھا (روح میں جان ڈالنے اور اس کی تقدیس کا عمل) تو 22 جنوری سن 2024” کو ہوئی اور ”ہر ایک شخص نے اس سے روحانی سکون و اطمینان محسوس کیا۔”
کابینہ کی جانب سے مرکزی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ قرارداد پڑھ کر سنائی اور اس اجلاس کو ”تاریخی۔۔۔ قرار دیتے ہوئے اسے ملینیئم کابینہ” قرار دیا گیا۔ اس قرارداد میں مزید کہا گیا کہ نریندر مودی نے ”صدیوں پرانے خواب کو پورا کر دیا ہے۔” ایک وہ خواب جسے، ”بھارتی تہذیب پانچ صدیوں سے دیکھتی رہی تھی۔” قرارداد میں مودی کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا گیا: ”لوگوں سے آپ کو جو پیار ملا ہے اس نے آپ کو عوام کے ایک ہیرو کے طور پر قائم کر دیا۔ تاہم نئے دور کے آغاز کے بعد، آپ نئے دور کے سرخیل کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔”
’رام مندر پران پرتشٹھا کو سیاسی اسٹیج بنا دیا گیا‘، کمل ناتھ کا بی جے پی پر حملہ
بعد میں کابینہ کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کے بارے میں صحافیوں کو بتاتے ہوئے مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انو راگ ٹھاکر نے کہا، ”مرکزی کابینہ کی میٹنگ کے آغاز میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پران پرتیشتھا کی کامیاب تقریب پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا۔
ان کا کہنا تھا، ”ایک عوامی تحریک کے طور پر، ایمرجنسی کے دوران بھی لوگوں میں اتحاد تھا، تاہم وہ اتحاد آمریت کے خلاف، مزاحمت کی تحریک کے طور پر تھا۔ البتہ بھگوان رام کے لیے عوامی تحریک جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں ایک نئے دور کے آغاز کا اشارہ دے رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، ” آزاد بھارت میں رام جنم بھومی تحریک واحد ایسی تحریک تھی جس نے سب کو جمع کیا۔ کروڑوں بھارتی جذباتی طور پر اس تحریک سے وابستہ تھے اور اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ رام مندر، ”آج ایک بیانیہ ترتیب دینے والی عوامی تحریک بن چکی ہے۔ اس قسم کا کارنامہ کوئی ایسی شخصیت کر سکتی ہے، جس کے ہاتھوں کو خدا کی طرف سے خصوصی تائید و نصرت حاصل ہو۔” ایک طرف مودی کی کابینہ ان کی تعریف میں جہاں اس قدر رطب اللسان ہے تو دوسری جانب متعدد بین الاقومی ادارے اور انسانی حقوق کے گروپ گزشتہ کئی برسوں مسلسل بھارت میں میڈیا کی آزادی، انسانی حقوق کے مسائل، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور کمزور ہوتی جمہوریت جیسے امور کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔
امریکی حکومت کی امداد سے چلنے والے ایک ادارے ‘فریڈم ہاؤس’ نے نریندر مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی بدترین صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتی آزادی اور جمہوریت کا درجہ کم تر کرتے ہوئے اسے چند برس قبل ”جزوی طور پر آزد” ملک کی فہرست میں ڈال دیا تھا۔
اس ادارے نے ”فریڈم ان دی ورلڈ” عنوان سے جو رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اپنے مسلم شہریوں کے خلاف امتیازی سلوک جاری ہے اور حکومت کے ناقدین اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس میں کہا گیا تھا کہ ”جمہوری اقدار کے چیمپیئن کے طور پر کام کرنے اور چین جیسے آمرانہ ممالک کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی بجائے، مودی کی حکومت اور ان کی پارٹی المناک طور پر بھارت کو آمریت کی جانب لے کر بڑھ رہی ہے۔”