جنگ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف دنیا بھر میں لاکھوں شہری سڑکوں پر
نیو یارک 06 اکتو بر (ایجنسی) غزہ میں اسرائیل کی بد ترین اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کا ایک سال مکمل ہونے کے ساتھ ہی اتوار کے روز دنیا کے تقریباً تمام بڑے اور اہم شہری مراکز میں ہزاروں کی تعداد میں شہری احتجاجی ریلیوں میں شریک ہو کر غزہ اور لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے نکل آئے ہیں۔ان جنگ مخالف شہریوں کی حساس انسانی برادری کی اس وقت لاکھوں کی تعداد سڑکوں پرجنگ بندی کے بینروں ، نسل کشی روکنے کے مطالبوں پر مبنی کتبوں اور اسرائیلی بمباری سے قتل کیے گئے بچوں اور عورتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پر مبنی نعروں کے ساتھ موجود ہے۔انسانیت کے لیے حساس اور انسانیت کے خلاف اسلحے کے اندھے اور بہیمانہ استعمال کے خلاف شہریوں کے یہ مظاہرے اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی، سرپرست اور اسلحہ سپلائر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں بھی جاری ہیں۔ مظاہرین احتجاج کرتے کرتے وائٹ ہاؤس کے باہر بھی پہنچ گئے۔ جہاں انہوں نے امریکی انتظامیہ سے اسرائیل کو اسلحے کی سپلائی روکنے کے لیے زبردست نعرے بازی کی ۔ یہ مظاہرین ہاتھوں میں کتبے اٹھائے ہوئے تھے جن میں جنگ بندی کا بھی مطالبہ تھا۔مظاہروں کے دوران ایک شخص نے احتجاجاً خود کو زندہ جلانے کے لیے اپنے آپ کو آگ لگا لی۔ ‘اے ایف پی کے نمائندے کے مطابق آگ نے اس شخص کے بائیں بازو کو لپیٹ میں لے لیا۔علاوہ ازیں اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے مخالف ہزاروں انسان دوست شہری امریکہ، یورپ ، افریقہ ، آسٹریلیا اور ایشیائی ملکوں کے دارالحکومتوں میں احتجاج کے لیے نکل رہے ہیں۔ جن کو اسرائیل کی بمباری سے اب تک تقریباً 42 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام پر شدید غم و غصہ ہے۔ ان 42 ہزار فلسطینیوں میں زیادہ تر تعداد عورتوں اور معصوم بچوں کی ہے۔ادھر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں غزہ جنگ کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں ملین مارچ کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔
جس کی اپیل جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کر رکھی ہے۔پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں لاہور اور اسلام آباد سمیت جگہ جگہ اس اپیل پر بڑے احتجاجی مظاہروں کی تیاریاں جاری ہیں اور عوام میں فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا احساس پایا جاتا ہے۔پاکستان میں اس دوران اسرائیل کی حامی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے ۔دوسری جانب اسرائیل نے اب غزہ کے ساتھ ساتھ لبنان میں بھی جنگ کا محاذ کھول رکھا ہے۔ جہاں اب تک لگ بھگ 2 ہزار لبنانی بھی اسرائیلی بمباری کی زد میں آکر ہلاک ہو چکے ہیں۔ کشیدگی کا دائرہ آہستہ آہستہ پورے خطے میں پھیل رہا ہے۔ تاہم اسرائیل کو فی الحال جنگ سے روکنا ممکن نہیں نظر آرہا۔اسرائیل کے حامی امریکہ و یورپی ملکوں میں مختلف یہودی تنظیموں کی شکل میں بھی اس موقع پر احتجاج کرنے کے لیے سامنے آنے کی تیاری میں ہیں تاکہ وہ اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر ہونے والی سبکی کا ازالہ کر سکیں اور یورپی ممالک میں اسرائیل مخالف مظاہروں کے لیے سد راہ ہو سکیں۔ادھر اٹلی کے شہر روم میں اسرائیلی جنگ کے مخالف مظاہرے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور آبی توپوں کا استعمال کیا۔ تاہم درجنوں مظاہرین کی طرف سے بھی پولیس پر پانی کی بوتلیں اور پٹاخے پھینکنے کی اطلاعات سامنے آئیں۔۔اے ایف پی نے اس موقع پر ایک پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کو رپورٹ کیا ہے۔ البتہ مظاہرین میں سے دو کی گرفتاریاں رپورٹ ہوئی ہیں۔ تاہم احتجاج میں شریک کسی شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع سامنے نہیں لائی گئی ہے۔یہ مظاہرین اسرائیل کو ایک مجرم ریاست کے طور پر پیش کرتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے کہ جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے کنوینشنز کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔جرمنی میں بھی اسی طرح کے احتجاجی مظارے دیکھنے میں آئے ہیں۔ جہاں دارالحکومت برلن میں جنگ مخالف مظاہرین سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھے ہوئے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔برلن پولیس کے مطابق اس نے 26 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ یہ حراست میں لیے گئے لوگ پولیس کے مطابق اسرائیل کے حامیوں کی توہین کر رہے تھے۔ برلن میں اسرائیلی جنگ کی حمایت میں بھی سینکڑوں لوگوں نے مظاہرہ کیا۔برطانوی دارالحکومت لندن میں فلسطین کے لیے قومی مارچ کے نام پر مظاہرے کا اہتمام کیا گیا۔ جو فلسطینی شہریوں اور لبنانی شہریوں پر اسرائیلی بمباری روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔28 سالہ زکریا باقر نے اب تک درجنوں مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ جو اسرائیل کی جنگ کو روکنے کے لیے لندن اور دوسرے شہروں میں کیے جا چکے ہیں۔ زکریا باقر کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی چاہتا ہے کہ جنگ بند ہو اور امن و سلامتی کا ماحول سامنے آئے۔ ہم یہ تبدیلی چاہنے کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ ابھی تک حالات بد سے بدتر ہونے کی نشانیاں ہیں اور بہتری کی کوئی امید نظر نہں آرہی۔ زکریا باقر کے ساتھ اس کی والدہ اور بھائی بھی اس ریلی میں شریک تھے۔لنندن کی یہ ریلی پر امن تھی۔ تاہم پولیس نے 15 شہریوں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں 3 ایسے لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو ایمرجنسی ورکر ہیں۔ مگر فلسطینی کالعدم تنظیم کی حمایت کرتے ہیں۔اس سے پہلے 5 اکتوبر کو بھی غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف مظاہرین کی بڑی تعداد لندن کی سڑکوں پر نکلی ہوئی تھی جو جنگ بندی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ڈبلن میں بھی سینکڑوں شہریوں نے گلیوں، سڑکوں اور بازاروں میں نکل کر غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف نعرے لگائے۔ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں بھی ہزاروں شہریوں نے جنگ کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف نعرے لگائے اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ ‘اے ایف پی۔ کے نمائندے کے مطابق میڈرڈ میں بھی پانچ ہزار کے قریب مظاہرین جنگ کے خلاف اور اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں بھی ہزاروں شہریوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے ریلیوں میں شرکت کی۔ ان میں سے سینکڑوں مظاہرین مارچ کرتے ہوئے اسرائیلی سفارتخانے کی طرف گئے، جسے پولیس نے بھاری نفری کے ساتھ محاصرے میں لے رکھا تھا اور شہریوں کو اسرائیلی سفارتخانے کی طرف جانے سے روک رکھا تھا۔جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں ہزاروں لوگوں نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کیا اور اسرائیل کو ایک نسل پرست ریاست قرار دیا۔ جنوبی افریقہ کے یہ شہری فلسطینیوں کے پرزور حامی ہیں اور یہ نعرے لگا رہے تھے ‘ہم سب فلسطینی ہیں، ہم سب فلسطینی ہیں۔جنوبی افریقہ کے شہروں ڈربن اور جوہانسبرگ میں بھی اسی طرح کی احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کیا گیا تھا جو سلسلہ آج اتوار کے روز کیپ ٹاؤن میں بھی جاری رہا۔ایک روز قبل ڈربن میں ہونے والے مظاہروں کے دوران جنوبی افریقہ کے شہریوں نے غزہ اور لبنان پر مسلط کردہ اسرائیلی جنگ کے خلاف مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور وہ ان جنگوں کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔وینزویلا کے شہر کراکس میں بھی سینکڑوں مظاہرین نے اسرائیلی جنگ کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرین اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر برائے وینزویلا کے سامنے فلسطین کا ایک بڑا سا پرچم لے کر جمع تھے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوائی جائے۔اس موقع پر وینزویلا میں یونیورسٹی کے استاد 53 سالہ پروفیسر جیسس رئیس نے ‘اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘سوال یہ ہے کہ جب اسرائیل یہ سب کچھ کر رہا ہے تو اقوام متحدہ کی امن فورس کہاں رہ گئی ہے؟ کیا کر رہی ہے؟
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں صبح سویرے مظاہرین کی بڑی تعداد اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی و حامی امریکہ کے سفارتخانے کی طرف مارچ کر رہی تھی۔ تاکہ اسرائیل کو اسلحہ دینے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکے۔اس موقع پر ریلی کے منتظمین اور سماجی رہنماؤں نے آزاد فلسطینی ریاست کے حق میں تقریریں کیں اور انڈونیشیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ‘نارملائزیشن کو انکار کر دے۔اسرائیل کے ایک بڑے اتحادی ملک آسٹریلیا میں بھی ہزاروں شہریوں نے سڈنی کے گلی کوچوں میں اسرائیلی جنگ کے خلاف احتجاج کیا اور آسٹریلین حکومت س مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو اسلحہ دینے سے باز رہے۔بتایا گیا ہے کہ نیو یارک ، سڈنی ، بیونس آئرس، منیلا ، میڈرڈ، کراچی، لاہور، اسلام آباد، ڈھاکہ سمیت بہت سارے ملکوں کے دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیوں کی تیاریاں جاری ہیں اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک سال مکمل ہونے پر سخت احتجاج اور آواز بلند کیے جانے کا امکان ہے۔علاوہ ازیں لبنان میں بھی اسرائیلی جنگ نے عالمی سطح پر اس احتجاجی لہر کو مزید توانائی دی ہے۔ امکانی طور پر ایرانی دارالحکومت تہران اور دوسرے بڑے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہروں کی توقع ہے۔