اتر پردیش کے آگرہ میں پولیس کے ذریعے ہراساں کیے جانے کا درناک نتیجہ سامنے آیا ہے۔ 72 گھنٹے کے اندر دو سگے بھائیوں کی خودکشی سے پورے علاقے میں سنسنی پھیل گئی ہے۔ الزام ہے کہ ہاتھرس پولیس کے ٹارچر کے بعد پہلے چھوٹے بھائی سنجے کمار نے خودکشی کر لی اور پھر پیر (24 جون) کی دوپہر کو بڑے بھائی پرمود کمار نے کھیت میں جا کر اسی مقام پر خودکشی کر لی جہاں چھوٹے بھائی نے جان دی تھی۔ بڑا بھائی ہوم گارڈ کا جوان تھا۔
نیوز پورٹل ’آج تک‘ کی خبر کے مطابق دونوں بھائیوں کی موت کے بعد گاؤں والے مشتعل ہو گئے اور موقع پر پہنچی پولیس کو لاش اتارنے سے روک دیا۔ لاش 4 گھنٹے تک پھندے سے لٹکتی رہی۔ چھوٹے بھائی کی خودکشی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا بہنوئی ایک لڑکی کے ساتھ بھاگ گیا تھا اور اس معاملے میں لڑکی کے گھر والوں نے تھانے میں شکایت درج کرائی تھی۔ لڑکی کے ٹھکانے کا پتہ لگانے کے لیے سنجے کو پولیس اٹھا کر لے گئی اور تھانے میں اس پر تشدد کیا گیا۔ بعد میں اسے امن و امان خراب کرنے کے الزام میں چالان کرتے ہوئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کھیت میں اس کی لاش پھندے سے لٹکتی ہوئی ملی تھی۔
چھوٹے بھائی کی موت کے بعد اب اس کے بڑے بھائی پرمود کی لاش کھیت میں درخت سے لٹکی ہوئی ملی۔ لاش کو اتارنے کے بعد اس کی تلاشی لی گئی تو خودکشی نوٹ برآمد ہوا۔ اس نوٹ میں لکھا ہے کہ ’’میرے بھائی کی موت کے بعد پولیس دھمکیاں دے رہی تھی، داروغہ پیسے مانگ رہا تھا، پولیس سے پنگا (دشمنی) لینا میری بھول تھی، حکومت میرے خاندان کا خیال رکھے، جے شری رام۔‘‘ خودکشی کرنے والے یہ دونوں بھائی برہن تھانہ علاقہ کے گاؤں روپ پور کے رہنے والے تھے۔ ہوم گارڈ جوان پرمود کمار کی لاش آم کے جس درخت سے لٹکی ہوئی ملی، اسی درخت سے 20 میٹر دور ایک اور درخت سے اس کے بھائی سنجے کمار کی لاش تین دن پہلے لٹکی ہوئی ملی تھی۔ دونوں بھائیوں کی موت کے بعد گاؤں میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔ مرنے سے پہلے پرمود نے اپنی کلائی پر لکھا تھا کہ ’’ہری اوم داروغہ نے اسے 11-12 جون کو دو دن تک لاک اپ میں بند رکھا، رہا کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے مانگے اور پھر 10 ہزار روپے لے کر 13 جون کو چھوڑ دیا۔ پولیس اور ہری اوم داروغہ نے تشدد کیا۔‘‘
مرنے سے پہلے پرمود نے خودکشی نوٹ میں لکھا کہ ’’میرا بھائی سنجے پھانسی لگا کر مر گیا، اب مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لیے خودکشی کر رہا ہوں۔ مجھے فون آ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ آج ہی بیان دینے آ جاؤ اور مجھ پر دباؤ بنایا جا رہا ہے۔ میرا دماغ ٹھیک نہیں ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ میرے خاندان کی طرف توجہ دی جائے۔‘‘ پرمود نے آخر میں لکھا ہے کہ ’’میں نے پولیس سے پنگا (دشمنی) لینے کی بھول کی۔ کوئی پولیس کے خلاف نہیں بولنا کیونکہ بہت پریشان کرتے ہیں۔‘‘
فی الحال پولیس خودکشی نوٹ کی جانچ کر رہی ہے۔ اس معاملے میں پرمود کے بہنوئی نے ہاتھرس کے سعد آباد پولیس اسٹیشن کے انچارج اور سب انسپکٹر کے خلاف تحریری شکایت درج کرائی ہے۔ دونوں بھائیوں کی خودکشی کی جو وجہ سامنے آئی وہ حیران کن ہے۔ دراصل سنجے کا سسرال ہاتھرس کے سعد آباد میں تھا۔ یہیں سے اس کے بہنوئی نے ایک لڑکی کو بھگا لے گیا۔ لڑکی کے گھر والوں نے تھانے میں کیس درج کرایا، جس کے بعد سعد آباد پولیس نے بہنوئی کو پکڑنے کے لیے سنجے کمار کو اٹھا لیا۔ الزام ہے کہ اسے سعد آباد پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور بعد میں امن خراب کرنے پر چالان کر اسے چھوڑ دیا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے اسے دھمکی دی تھی کہ اگر لڑکی نہ ملی تو وہ اسے واپس تھانے لے آئیں گے۔ ہفتہ (22 جون) کو پولیس نے اسے دوبارہ بلایا اور ہراساں کیا نیز دھمکیاں دیں۔ پولیس کی ہراسانی اور دھمکیوں کی وجہ سے سنجے نے ہفتے کے روز اپنے گاؤں میں ایک درخت سے پھانسی لگا لی تھی۔ الزام ہے کہ اس کے بعد اس کے بڑے بھائی پرمود کو بھی ہراساں کیا گیا۔ اس معاملے میں فوری کارروائی کرتے ہوئے ہاتھرس کے ایس پی نیپون اگروال نے بتایا کہ تھانہ صدر کو لائن حاضر اور تفتیشی افسر کو معطل کر دیا گیا ہے۔ آگرہ پولیس نے کہا ہے کہ ملنے والے خودکشی نوٹ کی جانچ کی جائے گی۔ اسی کے ساتھ آگرہ میں آئی جی رینج سمیت تمام اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ جلد ہی اس معاملے کو بے نقاب کر کر کے مجرموں کو سزا دی جائے گی۔