اسرائیل 80 فیصد بجلی کا ڈھانچہ تباہ کر چکا ہے ، بحالی کیلئے اربوں ڈالر درکار
غزہ، 12 نومبر:۔ (ایجنسی) جنگ بندی کے باوجود غزہ کے بیشتر علاقے بجلی سے محروم ہیں۔ اکتیس سالہ فلسطینی ماں حنان الجوجو کو اپنے تین بچوں کو ٹارچ کی روشنی میں کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ جب وہ ٹارچ چارج نہیں کر پاتیں تو بچوں کو بھوکا ہی سونا پڑتا ہے۔حنان کہتی ہیں:"جب سورج غروب ہوتا ہے اور ہم مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں، تو اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اگر ٹارچ چارج ہو تو ہم اسے روشن کر لیتے ہیں، ورنہ اندھیرے میں ہی کھانا کھاتے یا سو جاتے ہیں۔"
خیمے میں زندگی اور خوف
حنان کا خاندان دو سال سے زیادہ عرصے سے بجلی سے محروم ہے۔ جنگ کے دوران وہ جنوبی غزہ کے رفح شہر میں بے گھر ہوئے۔ ابتدا میں وہ روشنی کے لیے موم بتیوں پر انحصار کرتے تھے، لیکن خیمے میں آگ لگنے کے خوف سے انہیں بھی چھوڑ دیا۔حنان بتاتی ہیں کہ انہوں نے ایک ایل ای ڈی لائٹ استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ٹوٹ گئی، اور اسے درست کرانے یا بیٹری خریدنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
غزہ کا بجلی نظام: مکمل تباہی کے دہانے پر
جنگ سے پہلے غزہ کی بجلی کا بیشتر انحصار اسرائیل سے آنے والی سپلائی پر تھا۔ اسرائیل سے 120 میگاواٹ اور مقامی پاور پلانٹ سے 60 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی تھی۔تاہم 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل نے غزہ کو “مکمل محاصرے” میں لے لیا، اور چند دنوں میں پاور اسٹیشن کا ایندھن ختم ہو گیا، جس کے بعد پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔
زندگی کی سرگرمیاں غروبِ آفتاب پر ختم
اب وسطی غزہ کے نوصیرات پناہ گزین کیمپ میں زندگی سورج غروب ہوتے ہی تھم جاتی ہے۔ حنان الجوجو کے بچے اسکول کا ہوم ورک بھی صرف اسی وقت کر پاتے ہیں جب ٹارچ چارج ہو۔حنان کے شوہر احمد کا کہنا ہے:”ہمارے پاس بمشکل اتنے پیسے ہیں کہ روزمرہ کا خرچ پورا کر سکیں۔”
اسرائیلی پابندیاں اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر
مارچ 2024 میں اسرائیلی وزیر ایلی کوہن نے الیکٹرک کارپوریشن کو ہدایت دی تھی کہ وہ غزہ کو بجلی کی فروخت بند کرے۔اب جبکہ غزہ کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، جنگ بندی کے بعد بھی بجلی کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر تعمیرِ نو ضروری ہے۔غزہ الیکٹرسٹی کمپنی کے مطابق، بجلی کی ترسیل کا 80 فیصد نیٹ ورک تباہ ہو چکا ہے، اور بنیادی ڈھانچے و مشینری کو ہونے والے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 728 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔
اندھیرے میں امید کی کرن
غزہ کے لوگ، جنہوں نے مسلسل بمباری، بے گھری اور بھوک کا سامنا کیا ہے، اب روشنی کی بحالی کے منتظر ہیں۔حنان الجوجو کی طرح ہزاروں خاندانوں کے لیے بجلی صرف ایک سہولت نہیں، بلکہ زندگی کی علامت بن چکی ہے۔



