ریاستی وزیر تعلیم کا کلکتہ یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر پر نشانہ
کولکاتا: کلکتہ یونیورسٹی (سی یو) میں طلبہ پر پابندی اور سنسر شپ کے معاملے نے ایک بار پھر سیاسی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ ریاستی وزیر تعلیم برتیا باسو نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “یونیورسٹی کو برباد کر دیا گیا ہے۔ اب طلبہ پر سنسر شپ کی جا رہی ہے۔ یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ اگر طلبہ کسی چیز کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ کلکتہ یونیورسٹی کی موجودہ حالت تشویشناک ہے، “یونیورسٹی آل انڈیا رینکنگ میں سب سے نیچے ہے۔ سی یو کو برباد کیا جا رہا ہے۔ طلبہ کو نشانہ بنانا دراصل طلبہ برادری کی توہین ہے۔”برتیا باسو نے ترنمول چھاترا پریشد کے جنرل سکریٹری ابھیروپ چکرورتی کا دفاع بھی کیا۔ ان پر یونیورسٹی انتظامیہ نے وائس چانسلر کی مبینہ توہین کرنے پر پانچ سال کی پابندی عائد کی تھی۔ وزیر تعلیم نے اس فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا”مجھے نہیں معلوم کہ یہ کن اصولوں کے مطابق ہو سکتا ہے۔ کیا ذاتی دشمنی کی وجہ سے ایسا کیا گیا؟ تعلیم نوجوانوں کا حق ہے، انہیں اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔”انہوں نے طلبہ کو یقین دلایا کہ اگر کسی طالب علم کا کیریئر تباہ ہونے کے خطرے میں ہے تو محکمہ تعلیم ہر طرح سے ان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔خیال رہے کہ حال ہی میں ترنمول چھاترا پریشد کے یومِ تاسیس پر امتحانات ملتوی کرنے کے تنازعے کے بعد کلکتہ یونیورسٹی میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا۔ وائس چانسلر شانتا دتہ نے واضح کیا تھا کہ امتحانات وقت پر ہوں گے، ملتوی نہیں کیے جا سکتے۔ اسی فیصلے کے خلاف ترنمول کے طلبہ لیڈر ابھیروپ نے مبینہ طور پر نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے، جس کے نتیجے میں ان پر سخت پابندی لگا دی گئی۔



