ہزاروں اسرائیلیوں کا امریکی صدر سے غزہ جنگ ختم کروانے کا مطالبہ
یرو شلم 07 ستمبر (ایجنسی) یروشلم میں اب تک کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک میں دسیوں ہزار افراد نے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے فورم نے ہفتے کی شام نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ایک مذاکراتی ٹیم بھیجیں تاکہ جنگ کے خاتمے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کی جائے۔ فورم کے مطابق حماس کے ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی تجویز پر اسرائیل کی طرف سے تین ہفتوں تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس فورم نے نیتن یاہو کی حکومت سے موجودہ تجویز کو قبول کرنے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدے پر مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی۔ تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے اور اس دوران ابتدائی طور پر 10 زندہ یرغمالیوں کا فلسطینی قیدیوں کے بدلے تبادلہ کیا جائے گا۔دوسری جانب حماس نے بین الاقوامی ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کے تجویز پر اپنے اتفاق کو دہرایا ہے۔ حماس نے ایک الگ بیان میں کہا کہ وہ ’’ایسی کسی بھی تجویز‘‘ کے لیے تیار ہے، جو مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیل کی مکمل انخلا، انسانی امداد کی ترسیل اور ثالثی مذاکرات کے ذریعے یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا باعث بنے۔ تاہم نیتن یاہو ایک جامع معاہدے پر زور دے رہے ہیں، جس میں تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ میں موجود 48 یرغمالیوں میں سے صرف 20 زندہ ہیں۔ نیتن یاہو حماس کے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے پر بھی زور دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے۔اسرائیلی نشریاتی ادارے کان کے مطابق ثالثی کرنے والے ممالک امریکہ، قطر اور مصر چند دنوں میں ایک نئی تجویز پیش کرنے جا رہے ہیں، جو تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کو یقینی بنائے گی۔
ہزاروں اسرائیلیوں نے ہفتے کی رات تل ابیب میں ریلی نکالی جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے غزہ جنگ کو دباؤ سے ختم کروانے اور قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کی براہِ راست اپیلیں کی گئیں۔مظاہرین نے فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر ایک عوامی چوک پر اسرائیلی پرچم لہرائے اور قیدیوں کی تصاویر والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر یہ بھی لکھا تھا: ‘ٹرمپ کی میراث شکستگی کا شکار ہے کیونکہ غزہ جنگ جاری ہے۔ایک اور پر لکھا تھا: “صدر ٹرمپ، قیدیوں کو ابھی بچائیں!”تل ابیب کے رہائشی 40 سالہ بواز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ہم سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ دنیا میں واحد آدمی ہیں جو بی بی پر اختیار رکھتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔”کئی اسرائیلیوں میں وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے مایوسی بڑھ رہی ہے جنہوں نے فوج کو ایک بڑے شہری مرکز پر قبضہ کرنے کا حکم دیا ہے جہاں قیدیوں کی موجودگی کا امکان ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق قیدیوں کے اہلِ خانہ اور ان کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ غزہ شہر پر حملہ ان کے عزیزوں کی جانیں خطرے میں ڈال سکتا ہے اور یہ تشویش فوجی قیادت کو بھی ہے۔اورنا نیوٹرا نے حکومت پر اپنے شہریوں کو تنہا چھوڑنے کا الزام لگایا۔ ان کا فوجی بیٹا سات اکتوبر 2023 کو ہلاک ہو گیا تھا جس کی لاش غزہ میں مزاحمت کاروں کے پاس ہے۔ انہوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “ہمیں واقعی امید ہے کہ امریکہ آخرِ کار ایک جامع معاہدہ طے کرنے کے لیے فریقین پر دباؤ ڈالے گا جس سے قیدی واپس آ جائیں۔” ان کا بیٹا عمر بھی امریکی ہے۔تل ابیب میں ہفتہ وار مظاہروں کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس سے جنگ بندی کرے۔ منتظمین نے بتایا کہ ہفتے کی رات کی ریلی میں دسیوں ہزار افراد نے شرکت کی۔ یروشلم میں بھی ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا۔



