جنیوا، 6اگست (یو این آئی) جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 184 ممالک پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف ایک تاریخی معاہدہ تشکیل دینے کے لیے جمع ہوئے ہیں، ان ملکوں کو آگاہ کیا گیا کہ ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس کے ذریعے ماحولیاتی نظام کو تباہ اور سمندروں کو آلودہ کرنے والے عالمی بحران سے نمٹا جا سکے۔ڈان میں شائع فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 10 روزہ مذاکرات کے آغاز پر ان مذاکرات کی صدارت کرنے والے ایکواڈور کے سفارت کار لوئس ویاس والڈیوئیسو نے ایک ہزار 800 سے زائد مذاکرات کاروں سے کہا کہ ہم ایک عالمی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہے، ہمارے سمندروں اور دریاؤں کو آلودہ کر رہی ہے، حیاتیاتی تنوع کو خطرے میں ڈال رہی ہے، انسانی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد پر غیر منصفانہ بوجھ ڈال رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ نہایت ہنگامی نوعیت کا ہے، ثبوت بالکل واضح ہیں اور اس کے حل کی ذمہ داری ہم پر ہے۔پلاسٹک کی آلودگی اس قدر عام ہو چکی ہے کہ مائیکرو پلاسٹکس دنیا کی بلند ترین چوٹیوں، سمندر کی گہرائیوں، اور تقریباً انسانی جسم کے ہر حصے میں پائے جا چکے ہیں، تاہم 5 مرحلوں پر مشتمل بات چیت اور 3 سال کے مذاکرات دسمبر میں جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس وقت ناکام ہو گئے تھے، جب تیل پیدا کرنے والے ممالک نے اتفاقِ رائے کو روک دیا۔کلیدی شخصیات جو اس نئی کوشش کی قیادت کر رہی ہیں، اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ اس بار معاہدہ ممکن ہے، اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ بوسان کے بعد سے وسیع سفارت کاری ہوئی ہے۔یو این ای پی ان مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے، اور اینڈرسن نے کہا کہ مختلف خطوں اور مفاداتی گروہوں کے درمیان بات چیت نے ایک نیا جذبہ پیدا کیا ہے، زیادہ تر ممالک جن سے میری بات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جنیوا اس لیے آ رہے ہیں تاکہ معاہدہ ہو سکے‘۔انہوں نے کہا کہ کیا یہ آسان ہوگا؟ نہیں، کیا یہ سیدھا راستہ ہوگا؟ نہیں، لیکن کیا معاہدے کی راہ موجود ہے؟ بالکل۔دنیا بھر میں ہر سال 40 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار کیا جاتا ہے، جس میں سے نصف صرف ایک بار استعمال کے لیے ہوتا ہے، پلاسٹک کے کچرے کا صرف 15 فیصد جمع کیا جاتا ہے تاکہ اسے ری سائیکل کیا جا سکے، لیکن صرف 9 فیصد ہی حقیقتاً ری سائیکل ہو پاتا ہے۔تقریباً 46 فیصد لینڈ فل میں چلا جاتا ہے، 17 فیصد جلا دیا جاتا ہے اور 22 فیصد مناسب طریقے سے نہ سنبھالا جانے والا کچرا بن جاتا ہے۔
میں، ممالک نے اس بحران کو 2024 کے آخر تک حل کرنے کے طریقہ کار پر اتفاق کیا تھا، تاہم سمندری پلاسٹک سمیت ایک قانونی طور پر پابند معاہدے پر بوسان میں ہونے والے آخری مذاکرات ناکام ہو گئے۔کچھ ممالک ایک ایسا سخت معاہدہ چاہتے تھے، جو پلاسٹک کی پیداوار کو محدود کرے اور نقصان دہ کیمیکلز کو ختم کرے، مگر زیادہ تر تیل پیدا کرنے والے ممالک نے پیداوار پر پابندی کو مسترد کر دیا اور توجہ کچرے کے انتظام پر مرکوز رکھنا چاہی۔پلاسٹک کی پیداوار پر حد لگانا جنیوا میں ہونے والی بحث کے سب سے نازک نکات میں سے ایک ہے، سوئٹزرلینڈ کی ماحولیاتی وزارت کی ڈائریکٹر کیٹرین شنئبرگر نے افتتاحی پریس کانفرنس میں کہا یہ کوئی مطالبہ نہیں کہ پیداوار پر حد لگائی جائے، غیر رسمی ملاقاتوں میں یہ پیغام پیدا کرنے والے ممالک تک پہنچانا ضروری تھا۔اینڈرسن نے اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ پیداوار پر پابندی ہوگی یا نہیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ معاہدہ پلاسٹک کی پوری زندگی (پیداوار سے لے کر کچرے تک) کا احاطہ کرے گا۔600 سے زیادہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی جنیوا میں موجود ہیں اور اس بار انہیں مذاکراتی گروپوں کی میٹنگز تک رسائی حاصل ہے۔گرین پیس کے وفد کے سربراہ گراہم فوربز نے کہا کہ ہمیں پلاسٹک بنانا بند کرنا ہوگا۔



