اس معاملے کو وزیر اعلیٰ کے سامنے جلد پیش کریںگے: وزیر
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی،21؍جنوری:وقف قانون ترمیمی بل 2024 کو لے کر جھارکھنڈ میں مسلم حقوق منچ نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس مسئلے پر منچ نے جھارکھنڈ کے وزیر صحت ڈاکٹر عرفان انصاری کو ایک یادداشت پیش کرتے ہوئے ریاستی حکومت سے فوری مداخلت کی مانگ کی ہے۔ مسلم ادھکار منچ نے بل کے ممکنہ اثرات کو مسلم کمیونٹی کے حقوق کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے اور اسے دوبارہ غور کے لیے مرکزی حکومت کے سامنے پیش کرنے کی اپیل کی ہے۔مسلم ادھیکار منج نے اس بات پر گہری ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) نے وقف قانون سے متعلق میٹنگ کا انعقاد بہار اور مغربی بنگال میں تو کیا، لیکن جھارکھنڈ کو ان میٹنگوں سے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ اس نظراندازی کی وجہ سے جھارکھنڈ کے مسلم کمیونٹی میں غصہ پایا جاتا ہے۔ منچ نے کہا کہ وقف سے جڑے مسائل جھارکھنڈ کے مسلمانوں کے لیے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ دیگر ریاستوں کے لیے، اور ان کی نظراندازی کرنا ناانصافی ہے۔
مسلم ادھیکار منچ نے اس معاملے کو سیدھے وزیر اعلیٰ کی توجہ میں لانے کے لیے وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری سے بھی رابطہ کیا۔ انہوں نے سیکریٹری سے درخواست کی کہ وزیر اعلیٰ اس مسئلے پر خصوصی توجہ دیں اور فوری کارروائی کریں۔ منچ نے زور دے کر کہا کہ جھارکھنڈ حکومت کو مرکز کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے تاکہ مسلم کمیونٹی کے حقوق اور وقف جائیدادوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
عرفان انصاری کی یقین دہانی
ڈاکٹر عرفان انصاری نے منج کے نمائندوں کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کے ساتھ جلد ملاقات کرکے اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا، “میں ذاتی طور پر اس مسئلے کو وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھوں گا اور ان سے درخواست کروں گا کہ وہ وقف قانون ترمیمی بل پر جھارکھنڈ کی صورتحال کو مرکز کے سامنے رکھ کر فوری میٹنگ بلائیں۔ڈاکٹر انصاری نے منچ کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے اور مسلم کمیونٹی کے حقوق کی حفاظت کے لیے حکومت کی جانب سے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جھارکھنڈ حکومت کسی بھی حال میں اپنے شہریوں کے حقوق کی نظراندازی نہیں کرے گی، خاص طور پر جب یہ ان کے مذہبی اور سماجی حقوق کی بات ہو۔مسلم ادھیکار منچ کے قومی جنرل سیکریٹری اعظم احمد، کارگزار نائب صدر محمد مرتضیٰ عالم، مرکزی ترجمان زبیر احمد، اور مرکزی صدر افسر امام نے اس یادداشت پر دستخط کیے۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیاد پر حل کرے اور مرکزی حکومت کو مناسب سفارشات بھیجے۔منچ نے کہا کہ وقف جائیدادیں مسلم کمیونٹی کی وراثت ہیں اور ان کی حفاظت کرنا نہ صرف حکومت کا فرض ہے بلکہ یہ کمیونٹی کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے کا سوال بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس بل کو بغیر ترمیم کے نافذ کیا گیا تو یہ مسلمانوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔مسلم حقوق منچ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ وقف قانون ترمیمی بل کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھے گا اور ریاستی حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر مرکز کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ ڈاکٹر عرفان انصاری کی دی گئی یقین دہانی نے منچ کو کسی حد تک تسلی دی ہے، لیکن وہ اب بھی حکومت کی ٹھوس کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں۔



