
پہلے مرحلے کی ووٹنگ کی تیاریاں مکمل
ووٹر ہر اسمبلی انتخابات میں نصف سے زیادہ ارکان اسمبلی کو مسترد کر دیتے ہیں
رانچی سے 8340 پولنگ پارٹیاں پانچ اسمبلی حلقوں میں ووٹنگ کے لیے روانہ ہوئیں۔۔۔
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی، 12 نومبر:جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کی 43 سیٹوں پر کل صبح 7 بجے سے ووٹنگ ہوگی اور اس کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔چیف الیکٹورل آفیسر کے روی کمار نے آج کہا کہ 13 نومبر کو ہونے والی ووٹنگ کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ دور دراز کے پولنگ اسٹیشنوں پر ہیلی ڈراپنگ کے ذریعہ پولنگ اہلکاروں کو پہنچایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 13 نومبر کو صبح 7 بجے سے شام 5 بجے تک ووٹنگ ہوگی۔ 950 بوتھوں پر ووٹنگ شام 4 بجے ختم ہو جائے گی، لیکن قطار میں کھڑے لوگ ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ووٹ ڈال سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت ہے کہ ووٹنگ ایریا میں کوئی باہر والانہیں رہے گا۔ اس میں بیماری کی حالت میں چھوٹ کے لئے میڈیکل بورڈ کے ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔مسٹرکمار نے کہا کہ ووٹنگ کی رازداری ضروری ہے۔ اس صورتحال میں پولنگ اسٹیشن کے اندر موبائل فون لے کر جانا، فوٹو لینا یا ویڈیو بنانا غیر قانونی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانے پر سزا کا بھی التزام ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں کل 1.37 کروڑ ووٹر حصہ لیں گے۔ ان میں مرد ووٹرز کی تعداد 68.73 لاکھ اور خواتین ووٹرز کی تعداد 68.36 لاکھ ہے۔ تیسری جنس کے ووٹروں کی تعداد 303 ہے۔ 85 سال سے زیادہ عمر کے ووٹرز کی تعداد 63601، جبکہ معذور ووٹرز کی تعداد 1.91 لاکھ ہے۔ نیز 18-19 سال کے ووٹروں کی تعداد 6.51 لاکھ ہے۔
جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں مسلسل دوسری بار جیتنا سبکدوش ہونے والے ایم ایل اے کے لیے مشکل ہو گیا ہے۔انتخابی اعداد و شمار کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان نے عوامی نمائندوں کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ جھارکھنڈ اسمبلی میں اب تک ہوئے چاروں انتخابات میں ووٹروں نے تبدیلی کے حق میں بڑی تعداد میں ووٹ دیئے۔ 81 رکنی جھارکھنڈ اسمبلی میں ایم ایل ایز کا بہترین نتیجہ 2019 کے اسمبلی انتخابات کے دوران دیکھا گیا جب سب سے زیادہ 36 ایم ایل اے (44 فیصد) دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ 2005 کے اسمبلی انتخابات میں درجنوں وزراء سمیت 50 ایم ایل اے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ 62 فیصد رہا۔ 2009 کے اسمبلی انتخابات میں 61 ایم ایل اے کے خلاف عوامی غصہ پھوٹ پڑا اور یہ 75 فیصد رہا۔ 2014 کے انتخابات میں 55 ایم ایل ایز دوبارہ اسمبلی کا چہرہ نہیں دیکھ سکے یعنی 68 فیصد اور 2019 میں وزیراعلی سمیت 45 ایم ایل ایز کو عوام نے مسترد کردیا یعنی 56 فیصد۔اتنی بڑی تبدیلیوں کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کو چاروں انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں ہو سکی کیونکہ بڑی تبدیلیوں کی نوعیت اسمبلی وار اور علاقہ وار تھی، ریاستی سطح پر نہیں۔ ہاں، این ڈی اے کو 2014 میں اکثریت ملی تھی اور یو پی اے اتحاد کو 2019 میں اکثریت ملی تھی۔انتخابی اعداد و شمار کے مطابق 2005 کے انتخابات میں بی جے پی کے 32 میں سے صرف 13 ، جے ایم ایم ایم کے 12 میں سے چھ، کانگریس کے 11 میں سے 4 اور جے ڈی یو-سمتا پارٹی 8میں سے 3، آر جے ڈی کے 9 میں سے دو ایم ایل اے کی ہی انتخابی کشتی پار لگ سکی۔ ان کے علاوہ یو جی ڈی پی، اے جے ایس یواور 1 آزاد ایک – ایک سیٹ ایم ایل اے بھی اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہے۔ وہیں 2009 کے انتخابات میں جے ایم ایم کو 17 میں سے 5، بی جے پی کو 30 میں سے 4، کانگریس کو 9 میں سے 2، اے جے ایس یو کو 2 میں سے 2، آر جے ڈی کو 7 میں سے 1، ایم ایل کو 1 میں سے 1 اور جھاپا کے 1 ایم ایل اے نے کامیابی حاصل کی تھی۔ تین آزاد ایم ال اے بھی عوام کا دل دوبارہ جیتنے میں کامیاب رہے۔ سال 2014 میں جے ایم ایم کے 18 میں سے 7 ایم ایل اے،بی جے پی کے 18 میں سے 10 ایم ایل اے،اے جے ایس یو کے 5 میں سے 3 ایم ایل اے،آر جے ڈی کے 5 میں سے 0 ایم ایل اے اور جھارکھنڈپارٹی کے ایک میں سے ایک ایم ایل اے اپنی سیٹیں بچا سکے۔ 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کے 37 میں سے 12 ایم ایل اے، جے ایم ایم کے 19 میں سے13، جے وی ایم کے 8 میں سے ایک، کانگریس کے 6 میں سے 3 اور دیگر ایم ایل اے نے پارٹی بدل کر دوبارہ انتخاب جیتا۔ سال 2024 کے اسمبلی انتخابات میں اب کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا۔
