National

لوک سبھا انتخاب: ہریانہ میں رائے دہندگان بی جے پی کو سبق سکھانے کے لیے تیار، سبھی 10 سیٹوں پر کل ہوگی ووٹنگ

93views

ہریانہ کے کئی گاؤں میں جب ایسے پوسٹر اور بینر نظر آنے لگے جن پر لکھا تھا ’بی جے پی کی نو انٹری‘ تو بہت سے لوگوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ مانا جا رہا تھا کہ کسانوں کا غصہ زیادہ دن تک قائم نہیں رہے گا اور بی جے پی-جے جے پی کے پاس اقتدار اور پیسے کی طاقت تو ہے ہی، ایسے میں لوگوں کو آسانی سے اپنی جانب کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں بی جے پی لیڈروں اور وزراء کو کھلے عام کالے جھنڈے دکھانے کے واقعات اور بی جے پی کارکنوں و گاؤں والوں کے درمیان ٹکراؤ جب عام ہونے لگا تو بی جے پی اور اس کے کارکنوں نے خود ہی اپنے آپ کو منتخب علاقوں تک محدود کر لیا۔

گردابی طوفان ’ریمل‘ مغربی بنگال کے ساحل سے ٹکرانے کو تیار، 26-25 مئی کو دکھائے گا اپنا اثر

اب جبکہ ووٹنگ کی تاریخ آچکی ہے، ہریانہ کے مزاج میں ڈرامائی تبدیلی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ کہتا ہو کہ بی جے پی انتخاب جیت رہی ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کی وکالت کرنے والے پرشانت کشور بھی کرن تھاپر کے ساتھ انٹرویو میں یہ اشارہ دیتے نظر آئے کہ ہریانہ میں بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پرشانت کشور نے یہ ضرور کہا کہ بی جے پی کو کوئی بڑا نقصان نہیں ہے۔

زمینی سطح پر لوگ اب بی جے پی سے تنگ نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کو اگنی ویر یوجنا تکلیف پہنچا رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جب پی ایم مودی تیسری بار اپنے لیے 5 سال مانگ رہے ہیں تو نوجوانوں کے لیے صرف 4 سال کیوں؟ ہریانہ کے شہروں اور قصبوں میں ایسے تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں جہاں نوجوانوں کو داخلہ کے امتحانات کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ سینکڑوں نوجوان قریب کے پارک میں جمع ہوتے اور ورزش وغیرہ کرتے۔ یہ سلسلہ صبح و شام جاری رہتا۔ لیکن 2022 میں شروع کی گئی ایک سرکاری اسکیم کے تحت یہ ادارے بند کر دیے گئے اور نوجوانوں نے اپنا جوش و جذبہ کھو دیا اور ورزش چھوڑ کر وہ منشیات کی طرف مائل ہو گئے۔

پاپوا نیو گنی کے ایک گاؤں میں لینڈ سلائڈنگ سے تباہی، کم از کم 100 افراد کی موت، راحت و بچاؤ کاری کا عمل جاری

اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے مرکزی حکومت پر نشانہ سادھا کہ ملک کے دیش بھکت نوجوانوں کو ہریانہ نے یومیہ مزدور بنا دیا۔ ان کی یہ بات پورے ہریانہ میں گونج رہی ہے۔ حکومت اگنی ویر اسکیم کے خلاف نوجوانوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتی رہتی ہے۔ ہریانہ کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں نوجوان اس اسکیم کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ حکومت سے غصے اور مایوسی کی وجہ سے کئی نوجوانوں نے خودکشی تک کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ فوج میں ہر دسواں جوان ہریانہ کا ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہریانہ میں ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں اور پنشنرز نیز ان کے زیر کفالت افراد کی تعداد تقریباً 25 لاکھ ہے۔ ایسے دعوے بھی ہیں کہ فوج میں بھرتی کی تیاری کرنے والے تقریباً 1.5 لاکھ نوجوان وبا کی وجہ سے قریب دو سال تک ٹھپ پڑی رہی بھرتی کے عمل کی وجہ سے عمر کی حد سے باہر ہو گئے۔

بروالا کے بس اسٹینڈ پر گنے کا جوس بیچنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ صرف بروالا میں 50 کے قریب تربیتی مراکز ہیں جو نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اگنی ویر یوجنا شروع ہونے کے بعد یہ تمام مراکز بند ہو گئے ہیں اور صرف 4 سال سے نوجوانوں کی فوج میں شامل ہونے کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ پورے شہر کی معیشت تباہ ہو گئی اور چھوٹے کام دھندے آہستہ آہستہ بند ہو گئے، اس کی وجہ سے بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا جو ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

سب کو پتہ ہے، بدل گیا ہوا کا رخ، مگر…کمار کیتکر

یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب بی جے پی لیڈروں کے پاس ہی ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ دنوں ہریانہ کی خواتین پہلوانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے بھی لوگوں میں شدید ناراضگی ہے۔ خواتین پہلوانوں کا براہ راست الزام تھا کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے ان کا جنسی استحصال کیا ہے، لیکن ہاتھ میں ترنگا پکڑے ونیش پھوگاٹ اور ساکشی ملک کو دہلی کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور اس سب پر ہریانہ کے بی جے پی لیڈر خاموش تماشائی بنے رہے۔ بھلے ہی اس واقعہ کو ایک سال ہوچکا ہے لیکن لوگوں کے ذہنوں میں وہ تصویریں ابھی زندہ ہیں۔

خواتین پر مظالم کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا ہے۔ ایک خاتون کوچ نے ریاست کے وزیر کھیل سندیپ سنگھ پر جنسی ہراسانی کے الزام لگائے تھے، لیکن اس وقت کی کھٹر حکومت نے نہ تو انہیں وزارت سے نکالا اور نہ ہی ان کا استعفیٰ طلب کیا۔

او بی سی ریزرویشن پر ہائی کورٹ کے فیصلے کو ممتا بنرجی کا سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

اس کے علاوہ ریاست کے کسان بی جے پی سے کافی ناراض ہیں۔ زرعی قوانین کے خلاف مظاہرے میں ریاست کے 17 اضلاع کے کم از کم 114 کسانوں کی موت ہوئی تھی۔ کل 700 شہید کسانوں میں سے باقی کا تعلق پنجاب اور یوپی سے تھا۔ بھارتیہ کسان یونین (چڈھنی) کے ترجمان راکیش بیس بتاتے ہیں کہ ’شہید کسانوں‘ کی مکمل فہرست ناموں اور پتے کے ساتھ ہریانہ حکومت کو پیش کی گئی تھی لیکن آج تک بی جے پی حکومت نے ان کسانوں کے خاندانوں کے لیے کوئی امداد کا اعلان نہیں کیا۔ کسان یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ ان کے راستوں میں کیسی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھیں، راستے کھود دیئے گئے تھے، کیلیں بچھا دی گئی تھیں اور یہاں تک کہ ان پر گولیاں بھی چلائی گئیں۔ کھٹر حکومت میں اس وقت وزیر داخلہ رہے انل وِج کو ان سوالوں کا کئی گاؤں میں سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی ذمہ داری لی تھی کہ فیصلہ ان کا نہیں تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ کھٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی کے لیے مشکلیں ہی پیدا کیں۔

مانا جاتا ہے کہ پنجاب کے ساتھ ہریانہ بھی پورے ملک کا پیٹ بھرتا ہے، پھر بھی کسانوں کے ساتھ ایسی بدسلوکی کی گئی۔ خون کو منجمد کر دینے والی سردی میں ان پر واٹر کینن سے پانی کی بوچھاریں ماری گئی اور انہیں غدار اور خالصتانی کہا گیا۔ واضح رہے کہ  ہریانہ میں بھی سکھوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ جبکہ میوات جیسے علاقوں میں مسلمانوں کی ٹھیک ٹھاک آبادی ہے۔ ریاست کے شہری علاقوں میں کھانے- پینے کی جگہوں، دیواروں وغیرہ پر کسانوں کی حمایت میں نعرے لکھے ہوئے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسانوں کے ساتھ بی جے پی کے سلوک کو لوگ نہیں بھولے ہیں۔

انسانی وجہ سے موسمیاتی بحران

ان حالات میں بی جے پی نے وہ کیا جو وہ کر سکتی تھی۔ اس نے ریاست کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کو ہٹا کر ریاست کی کمان نائب سنگھ سینی کو سونپ دی۔ اس کا مقصد جاٹ اور غیر جاٹ کے درمیان توازن پیدا کرنا تھا۔ اگر یہ کام پہلے ہو جاتا تو شاید اس کا کچھ اثر بھی ہوتا لیکن یہ فیصلہ لینے میں کافی دیر ہو چکی تھی۔

بے روزگاری، مہنگائی کے ساتھ فصلوں کی کاشت کی بڑھتی ہوئی لاگت کا اثر جاٹ اور غیر جاٹ دونوں پر برابر ہے اور وہ پی ایم مودی کی تفرقہ انگیز تقاریر اور پاکستان اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن سے بے چین ہیں۔ اوپر سے پی ایم مودی کے ذریعے لوگوں کی املاک اور بھینسیں چھین لینے جیسے بیانات سے لوگ متفق ہی نہیں بلکہ ناراض بھی ہوئے ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کے اسٹار پرچارک یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ کہنا کہ اقتدار میں آنے پر پاکستان کے قبضے والا کشمیر واپس مل جائے گا، لوگوں کو متاثر کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔

فرضی پیدائش سرٹیفکیٹ معاملہ میں اعظم خان کی فیملی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے ملی ضمانت

ہریانہ کے پڑھے لکھے نوجوانوں کا اعلانیہ الزام ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتی ہوئی ہی نہیں ہے۔ ہر ضلع میں جو اسپورٹس اکیڈمیاں پہلے چل رہی تھیں انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ تکنیکی طور پر تعلیم یافتہ اور گریجویٹ نوجوان فروٹ جوس فروخت کر رہے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے ان کی شادیاں نہیں  ہو پا رہی ہیں۔ یہی نہیں حال ہی میں ایک نیوز ویب سائٹ سے گفتگو میں ایک پڑھی لکھی شادی شدہ لڑکی نے کہا کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں کہ موجودہ معاشی حالات میں خاندان بڑھانا درست ہوگا یا نہیں۔

بی جے پی کو ہر طرف سے ناراضگی اور غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پانی پت کے سنیل ملک اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مرکز میں کس کی حکومت بن رہی ہے لیکن ہریانہ میں تو بی جے پی کو سبق سکھانا ہی پڑےگا۔ جند کے ایم ایل اے پرمندر سنگھ ڈھل بھی اسی موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کے تئیں لوگوں کا غصہ گزشتہ 47 سالوں میں پہلی بار اتنا کھل کر سامنے آرہا ہے۔

Follow us on Google News