امریکی اور برطانوی حکام نے چینی ہیکنگ گروپ اے پی ٹی 31 پر سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس جاسوسی کا مقصد بیجنگ حکومت کے ناقدین کو ‘دبانا‘ تھا۔امریکی اور برطانوی حکام نے چینی ریاست سے منسلک ہیکنگ گروپ ‘ایڈوانسڈ پرسسٹنٹ تھریٹ‘، جو اے پی ٹی 31 کے نام سے معروف ہے، کے ہیکرو ں پر ”بدنیتی پر مبنی‘‘ سائبر مہم چلانے کا الزام لگایا ہے۔
امریکہ نے پیر کے روز ان ہیکرز پر چین کے ‘معروف ناقدین‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے کمپیوٹرز میں تکنیکی مداخلت کرنے کا الزام بھی لگایا۔ واشنگٹن میں امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ اس نے ووہان ژیاؤ روئزیچی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کے خلاف کارروائی کی ہے، جو چین کی وزارت برائے اسٹیٹ سکیورٹی کی صف اول کی کمپنی کے طور پر کام کرتی ہے اور جس نے مبینہ طور پر ”بدنیتی پر مبنی متعدد سائبر آپریشنز کے لیے ڈھال کے طور پر کام کیا ہے۔‘‘
محکمہ خزانہ نے ووہان کمپنی سے وابستہ دو چینی شہریوں ژاؤ گوانگ زونگ اور نی گاؤبین کو بھی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران دفاع، ایرو اسپیس اور توانائی سمیت امریکہ کے کلیدی انفراسٹرکچر سیکٹر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی محکمہ انصاف نے ژاؤ، نی اور پانچ دیگر ہیکرز پر کمپیوٹرز میں مداخلت اور وائر فراڈ کی سازش کا الزام بھی لگایا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ وہ گزشتہ چودہ برسوں سے سائبر مہم میں ملوث تھے، جس میں ”امریکی اور غیر ملکی ناقدین، کاروباری اداروں اور سیاسی عہدیداروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔‘‘
امریکی حکام نے بتایا کہ یہ افراد چین میں قائم ہیکنگ گروپ اے پی ٹی 31 کا حصہ تھے، جس نے مبینہ طور پر وائٹ ہاوس کے عملے، امریکی سینیٹرز اور بیجنگ پر تنقید کرنے والے امریکہ کے سرکاری اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔
امریکی ڈپٹی اٹارنی جنرل لیزا مونا نے ایک بیان میں کہا کہ ہیکرز کا مقصد ”چینی حکومت کے ناقدین کو دبانا، سرکاری ادارو ں کے خلاف اقدامات کرنا اور تجارتی راز چرانا‘‘ تھا۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم آئندہ ملکی انتخابات کے قریب ہیں۔‘‘ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اے پی ٹی 31 نامی ہیکنگ گروپ تقریباً چودہ سال سے کام کر رہا تھا اور سائبر جاسوسی کے نتیجے میں لاکھوں امریکیوں کے ورک اکاؤنٹس اور ذاتی ای میلز ممکنہ طور پر غیر محفوظ ہو گئے تھے۔
برطانیہ کا الزام
لندن میں نائب وزیر اعظم اولیور ڈاؤڈن نے اراکین پارلیمان کو بتایا کہ ان سائبر حملوں میں ملکی الیکشن کمیشن اور برطانیہ کے پارلیمانی اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا، ”چینی ریاست سے وابستہ افراد بدنیتی پر مبنی سائبر مہم کے لیے ذمہ دار تھے، جنہوں نے ہمارے جمہوری اداروں اور اراکین پارلیمان دونوں کو نشانہ بنایا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے قانون سازوں کے ای میل اکاؤنٹس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی ”ناکام‘‘ کوشش کی گئی۔
برطانوی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی جی سی ایچ کیو انٹیلی جنس ایجنسی نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ چینی ریاست سے وابستہ اس گروپ کی طرف سے سن 2021 اور 2022 کے دوران برطانیہ کے الیکشن کمیشن کے نظام میں مداخلت کی گی۔ بیان میں مزید کہا گیا، ”انٹیلی جنس حکام کو اس بات کا تقریباً یقین ہے کہ اے پی ٹی31 گروپ نے سن 2021 میں ایک علیحدہ مہم کے دوران برطانوی اراکین پارلیمان کے خلاف جاسوسی کی کارروائیاں کیں۔‘‘
ڈاؤڈن نے کہا کہ برطانیہ نے چین میں رہنے والے دو افراد نیز اے پی ٹی 31 سے وابستہ ایک شخص کے خلاف پابندی کی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں چین کے سفیر کو اس معاملے میں جواب دہی کے لیے طلب بھی کر لیا گیا ہے۔
چین کا ردعمل
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے فوری طور پر ان الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن چینی سفارت خانے نے پابندیوں کے بارے میں برطانیہ کے استدلال کو ”مکمل طور پر من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی بہتان‘‘ قرار دیا۔ کل پیر کے روز نیوزی لینڈ کی سکیورٹی کی وزیر جوڈتھ کولنز نے بھی کہا کہ سن 2021 میں ملکی پارلیمان کو اسی چینی ہیکنگ گروپ نے نشانہ بنایا تھا۔
کولنز نے تاہم کہا کہ نیوزی لینڈ چین پر پابندی عائد کرنے میں امریکہ اور برطانیہ کی تقلید نہیں کرے گا کیونکہ ویلنگٹن کے پاس ایسا کوئی قانون نہیں، جو اسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ متعلقہ ممالک کو کسی ثبوت کے بغیر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے دعووں کے حق میں ثبوت پیش کرنا چاہییں۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ”ہم ایسے بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔‘‘