
ضلع کرم میں صورتِ حال کشیدہ:متعدد گھر اور دکانیں نذرِ آتش
پشاور 23 نومبر (ایجنسی) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ مسلح افراد نے متعدد گھروں اور دکانوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا ہے۔خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی، کے مطابق ایک مقامی سینئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ شیعہ اور سنی کمیونٹیز کے درمیان کرم کے مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔عہدیدار نے بتایا کہ تازہ ترین جھڑپوں کے دوران 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 18 کا تعلق شیعہ اور 14 کا سنی کمیونٹی سے ہے۔کرم کے ضلعی پولیس افسر جاوید اللہ محسود نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی ہے کہ شیعہ سنی جھگڑے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 20 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔پولیس افسر نے مزید بتایا کہ علاقے میں حالات بدستور کشیدہ ہیں جب کہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی متضاد اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔یاد رہے کہ جمعرات کے روز ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں پشاور سے پاڑا چنار جانے ولے مسافر کانوائے پر حملے کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔واقعے کے بعد علاقے میں صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی جب کہ مشتعل افراد نے جمعے کو پاڑا چنار کے نواحی علاقوں میں بگن بازار کی متعدد دکانوں کو آگ لگا دی تھی جب کہ قریبی گھروں کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔مقامی ایس ایچ او سلیم شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سیکڑوں افراد جمعے کی شام چھ بجے بگن اور اس کے نواحی علاقوں پر حملہ آور ہوئے جس کے بعد لڑائی کا سلسلہ شروع ہوا جو ہفتے کی صبح تک جاری رہا۔
حالات بے قابو ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیںانہوں نے بتایا کہ فریقین کے درمیان جھگڑے میں ایک ہزار سے زائد گھروں جب کہ 300 سے زائد دکانوں کو جلایا گیا ہے۔ ان کے بقول علاقے میں اب بھی فائرنگ کے واقعات ہو رہے ہیں اور حالات بے قابو ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ضلع کرم میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا علاقہ چپری آتا ہے جس کے بعد بگن، صدہ، علیزئی اور آخر میں کرم کا صدر مقام پاڑا چنار آتا ہے۔ بگن اور پاڑا چنار کے درمیان ایک گھنٹے سے زیادہ کی مسافت ہے۔مقامی صحافی محمد علی طوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تازہ ترین فسادات کے بعد بڑے پیمانے پر بگن سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے جب کہ پاڑا چنار میں اب بھی سوگ کا ماحول ہے۔ تعلیمی ادارے، بازار اور عدالتیں مکمل طور پر بند ہیں جب کہ اسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔بگن سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شخص دل نواب نے بتایا کہ فرقہ ورانہ جھڑپوں کا سلسلہ جمعے کی شام اُس وقت شروع ہوا تھا جب 100 سے زائد افراد نے بگن گاؤں پر دھاوا بول دیا تھا۔ان کے بقول مظاہرین نے پہلے چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں سے گاؤں پر حملہ کیا جس کے بعد قریبی بازار میں پیٹرول کے زریعے آگ لگانا شروع کی۔دل نواب کے مطابق متاترہ بازار میں روزمرہ اشیا کے علاوہ پولٹری، گوشت، دودھ اور سبزی پھلوں کی دکانیں تھیں۔ شام کے باعث بیشتر دکانیں بند تھیں جس کی وجہ سے جانی نقصان کم تاہم بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ دوطرفہ فائرنگ اور لڑائی کا سلسلہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا اور فریقین کا بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔دل نواب کے بقول مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کنج، خار کلے، مقبل اور بالیش خیل سمیت پانچ مقامات پر لڑائی کی اطلاعات ملی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامی طور پر علاقہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
