International

پورپی ممالک کا لوٹے ہوئے نوادرات لوٹانے کا منصوبہ

225views

نوآبادیاتی دور میں ایشیا سے لوٹے گئے نوادرات واپس کرنے سے یورپی یونین کو اس براعظم میں اپنا تشخص بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ویسے بھی ان تاریخی نوادرات کی واپسی کے لیے یورپی ممالک پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔جنوری میں کمبوڈیا کے وزیر اعظم ہن مانیت کے دورہ فرانس کے دوران صدر ایمانوئل ماکروں نے خمیر دور کے کچھ مزید نوادرات واپس کرنے اور کمبوڈیا کے قومی عجائب گھر کو وسعت دینے کے لیے تکنیکی مدد کا وعدہ کیا تھا۔

ماکروں وہ اولین یورپی رہنما قرار دیے جاتے ہیں، جنہوں نے ایشیائی ریاستوں کی جانب سے ان کے نوادرات کی واپسی کے دیرینہ مطالبات کے لیے آواز بلند کی تھی۔ سن 2017 میں ایک تقریر کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ وہ نوآبادیاتی فرانس کے لوٹے ہوئے ثقافتی ورثے کو واپس کرنے کے لیے ‘ہر ممکن کوشش کریں گے‘۔

غزہ پٹی کا تیس فیصد حصہ تباہ ہو چکا، یو این سیٹلائٹ سینٹر

چند ماہ قبل ہی پیرس میں واقع قومی عجائب گھر ‘موزے گیمے‘ نے ساتویں صدی کے خمیر مجسمے کا سر اور جسم کمبوڈیا کو واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس تاریخی نمونے کو سن 1880 کی دہائی میں فرانس منتقل کیا گیا تھا۔ سن 2017 میں برلن نے بھی فرانس کی پیروی کرتے ہوئے بیسویں صدی کے اوائل میں نسل کشی کے واقعات کے دوران جنوبی افریقی ملک نمیبیا سے بٹورے گئے نوادرات واپس کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اسی طرح نیدرلینڈز کے دو عجائب گھروں نے بھی انڈونیشیا اور سری لنکا کو گزشتہ سال جولائی میں سینکڑوں نوادرات واپس کیے تھے۔

لوٹے گئے نوادرات کی واپسی کا منصوبہ

جرمن اور فرانسیسی حکومتوں نے جنوری میں ہی فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے قومی عجائب گھروں کے مجموعے میں افریقی ورثے کی اشیاء کے جائزے پر 2.1 ملین یورو خرچ کریں گے۔ اطلاعات ہیں کہ ایشیائی نوادرات کے جائزے کے لیے بھی اسی طرح کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

چوری شدہ نوادرات کی واپسی کے مطالبے کی ایک نئی لہر دسمبر میں اس وقت شروع ہوئی تھی، جب نیویارک کے میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ نے کہا تھا کہ برطانوی آرٹ گیلری سے سن 2019 میں خریدے گئے وہ مجسمے کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کو واپس کیے جائیں گے، جو دراصل لوٹ کا مال ہیں۔ ان میں چودہ مجسمے کمبوڈیا جبکہ دو تھائی لینڈ لوٹائے جائیں گئے۔ آسٹریا کے کئی عجائب گھروں نے اپنی کلیکشن کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور برلن کا ایک ‘بڑا عجائب گھر‘ اپنی کولیکشن کا جائزہ لے رہا ہے۔

نوادرات کی واپسی کی قانونی بنیاد کیا ہے؟

سن 1970 کا یونیسکو کنوینشن ایک ایسا عالی معاہدہ ہے، جس کے تحت کوئی بھی ملک لوٹی جائیداد واپس مانگنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ یہ معاہدہ ثقافتی املاک کی غیر قانونی درآمد، برآمد اور ملکیت کی منتقلی کی ممانعت اور روک تھام سے متعلق ہے۔

تاہم غیر سرکاری تنظیم ‘جرمن لوسٹ آرٹ فاؤنڈیشن‘ کا کہنا ہے کہ یہ کنونشن کا اطلاق نوآبادیاتی دور پر نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس کنونشن کے تحت پرانے زمانے میں لوٹے ہوئے مال کی واپسی کا مطالبہ ممکن نہیں ہے۔ دریں اثنا یورپی عجائب گھر زیادہ قیمتی نوادرات کو واپس کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ نیدرلینڈز کے عجائب گھروں کی جانب سے گزشتہ برس انڈونیشیا کو سینکڑوں نوادرات واپس کیے جانے کے باوجود ‘جاوا مین‘ کی باقیات نہ لوٹائی گئیں۔ یہ نوآبادیاتی دور میں دریافت ہونے والے ہومو ایریکٹس نسل کا پہلا معلوم فوسل قرار دیا جاتا ہے۔

نیدرلینڈز کی معافی

نیدرلینڈز کے وزیر اعظم مارک روٹے نے گزشتہ برس انڈونیشیا پر نیدرلینڈز کے قبضے پر باضابطہ طور پر معافی مانگی تھی، جس سے ایک ماہ قبل ڈچ حکومت کے کہنے پر دو عجائب گھروں نے جکارتہ کو لوٹے گئے نوادرات واپس کر دیے تھے۔ ڈچ وزیر خارجہ برائے ثقافت اور میڈیا گنائے اُسلو نے تب کہا تھا، ”یہ مستقبل کی طرف دیکھنے کا لمحہ ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس کولیکشن کی واپسی کے نتیجے میں ‘انڈونیشیا کے ساتھ قریبی تعاون کا دور‘ شروع ہو گا۔

تاریخی نوادرات کے محقق کیمرون شاپیرو کے مطابق اگر یورپی عجائب گھر اپنی کولیکشن میں موجود لوٹے ہوئے نوادرات ان ممالک کو واپس کرتے ہیں، تو یہ ‘خطے میں سافٹ پاور کی ایک بڑی حکمت عملی ہو گی جبکہ اس سے ان ممالک میں نوآبادیاتی مخالف جذبات بھی ختم ہو سکیں گے۔ تاہم شاپیرو نے مزید کہا کہ اگر یورپی باشندے نوادرات کی واپسی پر جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کی طرح داد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ‘اپنی کوششوں کا زیادہ عوامی مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنی تحقیقات میں خطے کی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہونا ہوگا‘۔

Follow us on Google News