ہومWest Bengalہاؤسنگ کے 16ویں ٹاور کو گرانے کے حکم کے خلاف

ہاؤسنگ کے 16ویں ٹاور کو گرانے کے حکم کے خلاف

Facebook Messenger Twitter WhatsApp

ڈویلپر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے

کولکاتا: نیوٹاؤن کے معروف رہائشی پروجیکٹ ایلیٹا گارڈن وسٹا میں تعمیر شدہ 16ویں ٹاور کو گرانے کے سلسلے میں کولکتہ ہائی کورٹ کے حالیہ حکم نے ہلچل مچا دی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے کے بعد اب پروجیکٹ کے ڈویلپر نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جائیں گے اور وہاں سے ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ہائی کورٹ میں جسٹس راج شیکھر منتھا اور جسٹس اجے کمار گپتا پر مشتمل ڈویژن بنچ نے اپنے فیصلے میں دو ٹوک انداز میں کہا تھا کہ دیگر فلیٹ مالکان کی رضامندی کے بغیر تعمیر کیا گیا 16واں ٹاور مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس ٹاور کو بچانے کا کوئی راستہ موجود نہیں، لہٰذا اسے منہدم کرنا ہی واحد حل ہے۔عدالت نے مزید ہدایت دی تھی کہ اس ٹاور کے 160 اپارٹمنٹس کے خریداروں کو ان کی اصل سرمایہ کاری بمعہ سات فیصد سالانہ سود واپس کیا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فلیٹ مالکان کے حقوق صرف ان کے اپارٹمنٹ کی چار دیواری تک محدود نہیں ہیں، بلکہ جس زمین پر پورا پروجیکٹ قائم ہے اس میں بھی ان کا متناسب حصہ شامل ہے۔ اسی وجہ سے 16ویں ٹاور کی تعمیر نے پہلے سے موجود 15 ٹاورز کے مکینوں کے حقوق کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی نشاندہی کی کہ صرف اضافی سہولیات دینے کا وعدہ کر کے فلیٹ مالکان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں پروجیکٹ کے رہائشیوں اور خریداروں میں بے چینی اور بے یقینی پیدا ہو گئی ہے۔دوسری جانب، ڈویلپرز کا موقف ہے کہ انہوں نے ٹاور کی تعمیر سے قبل تمام قانونی تقاضے اور سرکاری اجازت نامے پورے کر لیے تھے۔ ان کے مطابق، ہائی کورٹ کے فیصلے میں کئی پہلوؤں کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس لیے وہ اب سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈویلپرز کو یقین ہے کہ اعلیٰ عدالت سے انہیں ریلیف مل سکتا ہے۔یہ معاملہ نہ صرف ایلیٹا گارڈن وسٹا کے خریداروں بلکہ کولکتہ اور مغربی بنگال کی رئیل اسٹیٹ دنیا کے لیے بھی ایک اہم قانونی نظیر ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اس فیصلے کے بعد دیگر کئیپروجیکٹس پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں جن میں فلیٹ مالکان کی رضامندی اور زمین کے حقِ ملکیت جیسے مسائل زیرِ بحث آئے ہیں۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک اہم نظیر ثابت ہوگا۔ ہاؤسنگ قوانین پر نظر رکھنے والے وکیل دیباسس مکھرجی کے مطابق یہ معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ خریداروں کے حقوق کو نظرانداز کر کے کسی بھی پروجیکٹ میں اضافی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس پورے سیکٹر کی سمت متعین کرے گا۔اسی طرح، رئیل اسٹیٹ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے دیگر کئی پروجیکٹس پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، کیونکہ ریاست بھر میں کئی ہاؤسنگ پروجیکٹس میں مالکان کی رضامندی اور مشترکہ زمین کے حقوق کو لے کر تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔16ویں ٹاور کے فلیٹ خریداروں میں مایوسی اور بے یقینی پائی جاتی ہے۔ ایک خریدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ ہم نے اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کر یہ گھر خریدا تھا۔ اب اگر ٹاور گرایا جاتا ہے تو ہمیں صرف پیسہ اور سود واپس ملے گا، لیکن ہمارے خوابوں کا گھر کہاں جائے گا؟”دوسری جانب، پہلے 15 ٹاورز کے مکینوں نے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایلیٹا گارڈن وسٹا کا معاملہ اب صرف ایک ہاؤسنگ پروجیکٹ کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ مستقبل میں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے لیے ایک قانونی سنگِ میل بننے جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں، کیونکہ وہی اس تنازع کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

Jadeed Bharathttps://jadeedbharat.com
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.
Exit mobile version