برمی مہاجر کیمپ کا 1933 کا سرٹیفکیٹ بن گیا واحد سہارا
پرولیا:پرولیا کے ریلوے ٹاؤن آدرا کی ایرانی کالونی میں سخت ووٹر لسٹ جانچ کے دوران خوف چھایا ہوا ہے، رہائشی برسوں سے ووٹنگ کر رہے ہیں اور بیشتر کے نام 2022 کی ووٹر لسٹ میں بھی درج ہیں مگر شہریت کھونے کا ڈر ختم نہیں ہو رہا، ایران سے مذہبی ظلم کے باعث برما کے راستے ہندوستان پہنچنے والے ان خاندانوں کی واحد امید 9 فروری 1933 کا برمی مہاجر کیمپ سرٹیفکیٹ اور 1986 میں وزیر اعظم دفتر کا خط ہے۔کالونی کی خواتین ہاتھوں میں گنتی فارم لیے ہر آنے جانے والے سے پوچھتی پھر رہی ہیں کہ فارم صحیح بھرا ہے یا نہیں، کچھ کے نام پرانی ووٹر لسٹ میں نہ ہونے سے پریشانی مزید بڑھ گئی ہے، 70 سالہ نرگس بی بی تو گھر میں لگی آگ میں زیادہ تر کاغذات کھو چکی ہیں اور اب بچا کھچا ثبوت ہی سہارا ہے۔کالونی کے کئی خاندان اپنے آباؤ اجداد کے پرانے اسکولوں سے 1987 سے پہلے کے سرٹیفکیٹ اکٹھے کرنے میں لگے ہیں تاکہ اپنی شناخت مضبوط ثابت کر سکیں، شالو علی کے گھر میں ان کے بیٹے سیف اپنے دادا عاشق علی کا 1986 میں موصولہ خط سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ برمی پناہ گزین کیمپ کا سرٹیفکیٹ ہمارے لیے سب سے اہم ثبوت ہے، شالو علی کا کہنا ہے کہ ان کے بزرگ 1942 میں برما کیمپ سے ممبئی آئے تھے اور طویل سفر کے بعد آدرا میں بسے، آج وہ یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم اب کہیں کے بھٹکے لوگ نہیں، یہ بھارت ہی ہمارا اصل گھر ہے۔
