قانونی رکاوٹیں ہٹتے ہی 1.5 لاکھ ایکڑ ’خاص اراضی‘ کو مالکانہ حق دینے کی تیاری
جدید بھارت نیوز سروس
کولکاتہ، ریاستی حکومت نے چار دہائیوں سے چلے آ رہے ایک بڑے زمینی تنازعے کو ختم کرنے کی سمت فیصلہ کن قدم بڑھایا ہے۔ بائیں محاذ کے دورِ حکومت میں ہزاروں ایکڑ زمین کو ’ویسٹنگ‘ قرار دے کر سرکاری ملکیت میں لے لیا گیا تھا، لیکن ان میں سے بڑی تعداد ایسی اراضی کی تھی جس پر مالکان نے عدالتوں میں چیلنج دائر کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے وہ زمینیں حکومتی نوٹس میں درج ہونے کے باوجود نہ حکومت استعمال کر سکتی تھی اور نہ دعویدار مالکان۔ ریاستی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اگر دعویدار اپنے مقدمات واپس لے لیں تو ایسی تمام متنازعہ ’خاص اراضی‘ انہیں پٹے، فری ہولڈ یا مکمل مالکانہ حق کے طور پر واپس دے دی جائے گی۔
ریاستی کابینہ نے گزشتہ پیر کی میٹنگ میں اس اصول کی منظوری دے دی ہے اور محکمہ لینڈ اینڈ لینڈ ریفارمز بہت جلد اس کے لیے نوٹیفکیشن اور رہنما خطوط جاری کرے گا۔ افسران کے مطابق مقدمات کے حل کے بعد کم از کم ڈیڑھ لاکھ ایکڑ زمین قانونی طور پر اصل دعویداروں کے نام منتقل کی جا سکے گی۔ ریاست میں موجود زمین کے اعداد و شمار کے مطابق کل رقبہ 2 کروڑ 19 لاکھ ایکڑ ہے، جس میں 33.5 لاکھ ایکڑ زمین ویسٹنگ کے تحت لی گئی، جس میں زرعی زمین 14.65 لاکھ ایکڑ، جنگلاتی رقبہ 10.78 لاکھ ایکڑ اور غیر زرعی اراضی 8.07 لاکھ ایکڑ شامل ہے، اور 10.65 لاکھ ایکڑ زمین پہلے ہی تقسیم کی جا چکی ہے۔ قانون کے مطابق ایک فرد زیادہ سے زیادہ 24.22 ایکڑ غیر سیراب یا 17.3 ایکڑ سیراب زمین رکھ سکتا ہے اور اس سے زیادہ زمین قانون کے تحت سرکار لے لیتی ہے، اس حد سے تجاوز کے خلاف کئی دہائیوں قبل کسانوں اور مالکان نے عدالتوں سے رجوع کیا تھا جو آج تک زیر سماعت ہیں۔ ممتا بنرجی کی حکومت نے 2012 میں زمین کی الاٹمنٹ کی نئی پالیسی نافذ کی تھی، لہٰذا پٹے یا ملکیتی حقوق دینے کے یہ نئے اصول صرف انہی زمینوں پر لاگو ہوں گے جن پر پرانے دور میں قانونی تنازعہ تھا، جبکہ بھومی جیبی رکھشا سمیتی کے ارکان کو فی الحال اس پالیسی سے مستثنیٰ رکھا جائے گا کیونکہ زمین سے متعلق متعدد مقدمات سپریم کورٹ میں زیر غور ہیں۔ ریاستی حکومت کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے قانونی کاروائیوں کا بوجھ کم ہوگا اور زمین کی بڑی مقدار فعال ہونے سے ترقیاتی، رہائشی اور صنعتی منصوبوں کو نئی رفتار ملے گی۔
