خون کے بدلے رقم اور بدانتظامی نے اسپتال کا نظام بے نقاب
جدید بھارت نیوز سروس
سلی گوڑی: سلی گوڑی کے نارتھ بنگال میڈیکل کالج و اسپتال میں 17 سالہ ترن سنگھ کی موت کے بعد بڑا ہنگامہ برپا ہوگیا، جہاں لواحقین نے الزام لگایا کہ ایمرجنسی، ٹراما کیئر اور بلڈ بینک تینوں محکموں کی لاپرواہی نے ایک زندہ مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ کشن گنج کے سڑک حادثے میں شدید زخمی ہونے والا نوجوان جب NBMCH پہنچا تو ایمرجنسی وارڈ میں صرف معمولی ڈریسنگ کرکے اسے وارڈ میں منتقل کرنے کو کہا گیا، مگر وہاں ایک بھی بستر خالی نہ تھا اور اہل خانہ کو مجبوراً مریض کو فرش پر لٹانا پڑا، جہاں رات بھر نہ کوئی ڈاکٹر آیا نہ کوئی سینئر اسٹاف۔ نوجوان کے بہنوئی کے مطابق خون تیزی سے بہہ رہا تھا لیکن وقت پر کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ادھر بلڈ بینک میں اہل خانہ کو فی یونٹ 3,000 روپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تین یونٹ خون کا انتظام کرنے کے باوجود وہ رات بھر وارڈ میں پڑا رہا اور مریض تک نہیں پہنچایا گیا، جب کہ ٹراما یونٹ میں پہنچانے کے لیے نہ اسٹریچر دیا گیا نہ عملہ لواحقین کو خود مریض کو اٹھا کر، آکسیجن سلنڈر کندھے پر رکھ کر دوسری منزل تک لے جانا پڑا۔ کئی گھنٹوں تک خون بہتا رہا اور بالآخر نوجوان دم توڑ گیا۔ گھر والوں کا الزام ہے کہ علاج شروع ہی نہیں کیا گیا اور بچے کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ موت کی خبر ملتے ہی لواحقین مشتعل ہوگئے اور ٹراما کیئر یونٹ میں توڑ پھوڑ کی کوشش کی، جسے پولیس نے آکر قابو میں کیا۔ واقعے کے بعد ہسپتال کا پورا نظام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔ کیا واقعی کوئی بستر نہیں تھا؟ کیا خون کے عوض رقم طلب کی گئی؟ اور سب سے بڑھ کر، جب سب سہولیات موجود تھیں تو ایک زخمی کو وقت پر علاج کیوں نہ ملا؟ اسپتال انتظامیہ نے لاپرواہی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ مگر خون کے بدلے رقم مانگنے کی شکایت کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف NBMCH کی بدانتظامی، عملے کی کمی اور کمزور ایمرجنسی سسٹم کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ آخر عوام کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال کب تک اس طرح انسانی جانوں سے کھیلتا رہے گا؟
