حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ حماس غزہ میں جنگ بندی کے ایسے معاہدے پر کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہوگا جس میں واضح طور پر جنگ کا خاتمہ شامل نہیں ہو۔ اس سینئر عہدیدار نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ ذاتی وجوہات کی بنا پر جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔
حماس عہدیدار کے مطابق حماس نے درخواست کی ہے کہ معاہدے میں ایک واضح اور صریح متن شامل کیا جائے جس میں لکھا ہو کہ یہ مکمل اور مستقل جنگ بندی کا معاہدہ ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل نے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے۔ اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا وفد قاہرہ نہیں بھیجے گا جب تک حماس کا ردعمل نہیں آجاتا۔ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ ہمیں ابھی تک حماس کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا ہے اور اس جواب کے ملنے پر جنگی کونسل میں اس پر بات کی جائے گی۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ حماس کے جواب میں یرغمالیوں کے معاہدے کے فریم ورک کے حوالے سے مثبت پیش رفت دیکھی گئی تو اسرائیل غزہ جنگ بندی پر بات چیت مکمل کرنے کے لیے ایک وفد قاہرہ بھیجے گا۔ عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم جو چیزیں دیکھ رہے ہیں وہ یرغمالیوں کے معاہدے کے فریم ورک میں ایک ممکنہ معاہدہ ہے۔ خدشہ ہے کہ کسی حقیقی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات مشکل اور طویل ہوں گے۔ اہلکار نے مزید کہا کہ اگر ہم موساد کے سربراہ کی قیادت میں ایک وفد قاہرہ بھیجتے ہیں تو یہ فریم ورک کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت کا اشارہ ہو گا۔
اس سے قبل حماس کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا تھا کہ حماس کا مذاکراتی وفد ہفتہ کو جنگ بندی کی تجویز پر نئے مذاکرات کے لیے قاھرہ پہنچا ہے۔ حماس رہنما نے کہا ہم صرف یہ سوچ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں، جو ہمارا اصل سرمایہ ہیں، ان کے خلاف جارحیت کو کیسے روکا جائے۔ واضح رہے قطر، مصر اور امریکہ بطور ثالث اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کے یرغمالیوں کے تبادلے اور 40 دنوں کے لیے لڑائی بند کرنے کی تجویز پر حماس کے جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ نومبر کے آخری سات روز جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد پہلی مرتبہ کوئی جنگ بندی ہوگی۔ اس وقت 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 80 اسرائیلیوں سمیت 105 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔