
آیت اللہ کی ’ناقابل تلافی نقصان ‘ کی دھمکی ، ایرانی میزائلوں کی بارش سے اسرائیل میں حالات سنگین
نئی دہلی، 22 جون:۔ (ایجنسی) گزشتہ شب، امریکی فضائیہ نے ’ آپریشن مڈنائٹ ہیمر‘ کا آغاز کرتے ہوئے ایران کے تین اہم جوہری تنصیبات—فردو، نطنز اور اصفہان—کو نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں B-2 اسٹیلتھ بمبار اور ٹوماہاک میزائل استعمال کیے گئے، جن کے ذریعے نشانہ مخصوص اور محدود حملا قرار پایا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ’خود دفاع‘ کے قانونی دائرے میں کیا گیا، تاکہ ایران کے حساس نیوکلیئر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا کر ایران کو ایٹم بم بنانے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔صدر ٹرمپ نے اس کو ’شاندار عسکری کامیابی‘ قرار دیا اور واضح کیا کہ یہ ’ریجیم چینج‘ کے لیے نہیں بلکہ صرف جوہری دھمکی کو کنٹرول کرنے کی نیت سے ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے اپنا موقف یہ پیش کیا گیا کہ یہ حملہ صرف خود دفاعی اور محدود ہے، جس کا مقصد جوہری تسلح میں تیزی کو روکنا ہے، جبکہ امریکی فوجی مشن زمینی یا خطے میں براہِ راست تنازع کا حصہ نہیں بنے گا۔ دوسری جانب، پینٹاگون نے مزید کہا کہ یہ کارروائی قانونی اور منصفانہ تھی اور بین الاقوامی قوانین کا مکمل احترام کیا گیا۔
نیتن یاہو نے ’فیصلہ کن موڑ‘ قرار دیا
اسرائیلی حکومت نے امریکی حملے کو بھرپور انداز سے سراہا۔ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اپنے قوم سے خطاب میں اسے ’فیصلہ کن موڑ‘ قرار دیا، جو کہ اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ سلامتی کے لیے ایک قوت بخش اقدام ہے۔ ان کے مطابق، امریکہ نے اس مرحلے پر جو نوکری کھیلی، اس سے مستقبل میں کسی بھی تیزی سے ممکنہ جوہری خطرے سے نمٹنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔وزیر دفاع یوآو گالانت نے بھی کہا کہ یہ حملہ خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو معتدل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اسرائیل نے یقین دلایا کہ اگر ایران نے جوابی فائرنگ کی تو اس کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیلی فوج نے خطے میں دفاعی تیاری میں اضافہ کر دیا ہے تاکہ کسی بھی جوابی حملے کا مؤثر طریقہ سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اسرائیل نے یہ موقف بھی اپنایا کہ اس کارروائی سے ’خطے میں دیرپا امن کے کردار میں اضافے کا راستہ کھلے گا‘ ۔انہوں نے امریکہ کے ساتھ اپنی گہری عسکری و سفارتی بھائی چارے کا اعادہ کیا۔
ایران کا سخت ردعمل
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہای نے امریکی حملے کے بعد سخت ردعمل دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر ایسی کارروائیاں دوبارہ ہوئیں تو امریکہ کو ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے اسے ایران کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا اور بھرپور جوابی اقدام کا عندیہ دیا۔ امریکی حملے کے فوری بعد، ایران نے اسے ’غیر قانونی جارحیت‘ اور ’بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ ایرانی وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ’ یہ اقدام اسلامی جمہوریہ کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ ہے، جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’ یہ حملے عالمی امن کے لیے خطرناک نظیر قائم کرتے ہیں۔ امریکہ نے ایک ریاست پر جارحانہ حملہ کر کے خود کو ایک بار پھر عالمی قانون کے مجرموں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے‘۔ ایرانی صدر مسعود پزیشکیان اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی اپنے الگ الگ بیانات میں امریکہ کو خبردار کیا کہ ’اس ظلم کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا‘۔ایران نے اقوام متحدہ میں باضابطہ شکایت بھی دائر کی ہے، اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’اس خطرناک اور اشتعال انگیز رویے‘ پر امریکہ کی مذمت کرے۔ ایران نے یہ بھی عندیہ دیا کہ ’جوہری پروگرام جاری رہے گا‘ اور ایسی کارروائیاں اسے مزید دفاعی قوت حاصل کرنے کی طرف لے جائیں گی، نہ کہ روکنے کی طرف۔
ایران کا جوابی حملہ جاری، اسرائیل میں حالات سنگین
امریکی فضائی حملوں کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایران کی جانب سے فوری فوجی جوابی کارروائی کی گئی۔ ایرانی پاسداران انقلاب (IRGC) نے اسرائیل کے بڑے شہروں تل ابیب، حیفا، اور بیرشیوا کی جانب بیلسٹک اور کروز میزائل داغے۔ ان حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کے مختلف علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اور کم از کم 14 افراد زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) نے دعویٰ کیا کہ حملوں کے دوران بیشتر میزائل آئرن ڈوم ڈیفنس سسٹم نے روک لیے، تاہم کچھ میزائل شہری علاقوں میں گرے، جس سے املاک کو نقصان پہنچا۔ اسرائیل نے ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے اور اسکول، پبلک ٹرانسپورٹ اور پروازیں عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ایرانی عسکری ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ’ یہ محض آغاز ہے۔ اگر ایران پر حملے جاری رہے، تو ہم دشمن کے گہرے اندر تک حملے کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں‘۔ ایران نے اپنی فوج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے، جبکہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے تاکہ ممکنہ بڑے پیمانے پر ردعمل پر غور کیا جا سکے۔
