کانگریس کا انتخابی منشور جاری ہونے کے بعد سے ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ جہاں ایک جانب عوام کی جانب سے اس کی بھرپور پذیرائی ہو رہی ہے، تو وہیں بی جے پی اس پر تنقید بھی کر رہی ہے۔ پی ایم مودی نے تو کانگریس کے اس منشورسے متعلق یہ بیان تک دے دیا ہے کہ ’پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کانگریس کا انتخابی منشور ہے یا مسلم لیگ کا‘۔ پی ایم مودی کے اس بیان پر کانگریس کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہ اور پارٹی ترجمان سپریا شرینیت نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
کانگریس ترجمان سپریا شرینیت نے کہا کہ ’’10 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد جب ملک انتخابات کے دہانے پر ہے اور وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ کارڈ دکھا کر لوگوں سے ووٹ مانگنا چاہئے تو وہ گھبرا گئے ہیں۔ وہ پھر سے اپنی وہی گھسی پٹی ’ہندو-مسلمان‘ کی اسکرپٹ پر اتر آئے ہیں۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’وزیر اعظم اتنے گھبرائے اور اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ اپنی ممکنہ شکست کی وجہ سے وہ پھر بکواس کر رہے ہیں۔ کانگریس کے منشور ’نیائے پتر‘ پر ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔ میڈیا، ماہرین اور یہاں تک کہ ہمارے مخالفین کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ ’نیائے پتر‘ مستقبل کی تعمیر و ترقی کا ایک بہترین خاکہ ہے، جس میں سماج کے ہر طبقے کو شامل کیا گیا ہے-‘‘
سپریا شرینیت کا کہنا ہے کہ ’’کانگریس کے ’نیائے پتر‘ میں ہر اس مسئلے کا حل موجود ہے جو مودی حکومت نے اس ملک پر پچھلے 10 سالوں میں مسلط کیا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، معاشی عدم مساوات، کسانوں کے مسائل، خواتین کا عدم تحفظ۔… یہ نیائے پتر عوام کی آواز ہے، یہ ہندوستان کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم ہر بار کی طرح اس بار بھی مسائل سے توجہ ہٹانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ان کے کسی چاپلوس نے جب ان سے کہا کہ کانگریس کے مینی فیسٹو کا تو بہت چرچا ہو رہا ہے، تو انہوں نے کہا ہوگا گھبراؤ مت، میں ایسی بے سر پیر کی بات کروں گا کہ بحث کا رخ ہی موڑ دوں گا۔ اسی لیے انہوں نے بغیر کچھ سوچے سمجھے یہ کہہ دیا کہ ہمارے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ ہے۔‘‘
سپریا شرینیت اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’سچائی یہ ہے کہ نریندر مودی کی مسلم لیگ سے محبت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آزادی کی جنگ عظیم کے دوران بھی انگریزوں کے ساتھ کھڑے رہے اور جنہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ فرقہ وارانہ فساد پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ یاد رکھئے جب 1942 میں مہاتما گاندھی کی آواز پر اور مولانا ابوالکلام آزاد کی صدارت میں انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا کہہ کر پورا ملک ’کرو یا مرو‘ پر آمادہ تھا، تب مودی جی کے جد امجد شیاما پرساد مکھرجی مسلم لیگ کے ساتھ مل کربنگال و سندھ میں اپنی حکومت ہی نہیں چلا رہے تھے بلکہ انگریزوں کو یہ مشورہ بھی دے رہے تھے کہ اس عوامی تحریک کو کیسے دبایا جائے۔ مسلم لیگ اور انگریز دونوں سے ان کی پرانی محبت ہے۔‘‘
سپریا شرینیت کے مطابق سچائی یہ ہے کہ جب سے کانگریس کا منشور جاری ہوا ہے، بی جے پی میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ ایک اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی کے پاس 180 سیٹیں جیتنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اب تو حالات مزید مشکل ہو جائیں گے۔