National

ٹیپو سلطان: ایک روشن خیال حکمراں…یوم شہادت کے موقع پر خصوصی پیشکش کش

141views

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہندوستان میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھے، جنہوں نے تاجران فرنگ کو ملک بدر کرنے کا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ چنانچہ عشق و جنگ میں سب جائز کے مماثل فرنگیوں نے انہیں میدان جنگ میں حرص و طمع کے لالچی ہندوستانیوں کی اعانت سے گھیرنے کے علاوہ ان کے خلاف بے بنیاد افسانے گھڑ کر ان کی کردار کشی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خصوصاً ایسٹ انڈیا کمپنی سے منسلک انگریز مصنفین ولیم کرک پیٹرک، کرنل مارک ولکس اور ایچ ایچ ڈوڈویل نے اپنے آقاؤں کے دیے گئے ہدف کو بخوبی پورا کیا، جو ان کی ’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘ کی پالیسی کا اہم حصّہ تھا۔ ایسا اس لئے کیونکہ اس کے بغیر انگریز برصغیر میں ایک دن بھی راج نہیں کر سکتے تھے۔ تاریخ نویسی کے اس نئے رجحان نے گہرے اثرات مرتسم کیے۔

ولیم کرک پیٹرک کو سقوطِ سری رنگ پٹن کے بعد شیر میسور ٹیپو سلطان کے دستاویزات کا معائنہ اور ترجمہ کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ جس نے ان کے خطوط اور رقعات کو جمع کر کے’ سلیکٹ لیٹرز آف ٹیپو‘ کتاب مرتب کی۔

پیٹرک ٹیپو سلطان کے تئیں دل میں دبی ہوئی عداوت کے مدنظر دیباچہ میں یوں رقم طراز ہے کہ ”ان خطوط کی روشنی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے لکھنے والا ٹیپو سلطان ایک بے رحم اور بے لگام دشمن، ایک عدم روادار متعصب یا ایک غضبناک جنونی؛ ظالم اور بے انصاف حکمراں، ایک شوریدہ سر ظالم، ایک متشدد مذاکرات، ایک غیر سنجیدہ و غیر متوقع جدت پسند اور ایک بساطی و خوردہ فروش سوداگر تھا۔‘‘

کرنل مارک ولکس نے بھی پیٹرک کی تقلید کرتے ہوئے ’ہسٹوریکل اسکیچز آف دی ساؤتھ انڈیا‘ میں ٹیپو سلطان کو ایک متعصب قرار دیا ہے جس نے جبراً لوگوں کو مسلمان بنایا، اجتماعی ختنہ کروایا، مندروں کو منہدم کیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کیں۔‘‘

اگر ان مکر و فریب فرنگیوں کے بقول ٹیپو ایک بے رحم، سخت گیر اور ہندو کش حکمراں ہوتا تو میسور میں آج نظر آ رہے قدیم ہندو مندورں کا وجود تک نہیں ہوتا۔ ان عیار انگریز مصنفین کی کتابیں کسی بھی صورت میں قابل اعتماد نہیں ہیں جنہیں تاریخی کتابیں کہنے کے بجائے فکشن کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ ان تصانیف کا واحد مقصد ٹیپو سلطان کی شبیہ کو مسخ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

درحقیقت ٹیپو سلطان ایک کشادہ ذہن اور عصبیت سے پاک فرما رواں تھے۔ ان کے دور اقتدار میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کی مکمل آزادی دی تھی، بت تراشنے کے لیے رقمیں عطا کی جاتیں اور ایک موقع پر تو مندر تعمیر کرنے کا بھی حکم دیا۔ ان کے قلعہ کے آس پاس واقع نرسمہا اور گنگادھر یسورا منادر ان کی فراخدلی اور رواداری کی شہادت کے لیے کافی ہیں۔ یہاں تک کہ مندر سری رنگاتھ قلعہ سری رنگ پٹن سے محض کچھ ہی دور ی پر تھا، لیکن انہیں مندروں کی گھنٹیوں اور پجاریوں کے بھجن سے کبھی خلل محسوس نہیں ہوا۔ ان کی روشن خیالی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ انہوں نے ہندوؤں کو اعلیٰ منصب عطا کیے۔ ان کا میر آصف ( مالیات اور مال گزاری) پنڈت پورنیا خزانچی کرشنا راؤ شیماء آئینگر وزیر ( ڈاک و پولیس) ، اس کا بھائی رنگا آئینگر بھی ایک افسر تھا، مول چند وسوجان رائے مغل دربار میں ان کا چیف ایجنٹ، خاص پیش کار سبا راو ، منشی نرسئیا سرینواس راو اور خصوصی معتمد اپا جی رام تھے۔ کورگ کا فوج دار ناگپایہ ، کوئمبتوراور پالگھاٹ کے ریونیو آفیسر بھی برہمن تھے۔ ٹیپو کی بے قاعدہ گھوڑ سوار فوج کا سربراہ ہری سنگھ تھا۔ راما راو اور سیو اجی کے ہاتھوں میں باقاعدہ گھوڑ سوار دستے کی کمان تھی۔

اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے کورگ میں بعض سخت اقدام اٹھائے لیکن اس کی وجہ مذہب نہیں بلکہ سیاسی تھی، کیونکہ وہ بار بار سرکشی کے مرتکب ہو رہے تھے اور ٹیپو کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ اسی طرح جب انگریزوں کی شہ پر کیتھولک مشنری نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو ٹیپو نے ان کی سرکوبی کے لیے بھی سخت اقدامات کیے۔ بہر کیف تاریخ کو اسی عہد کے زمان و مکان میں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا ٹیپو سلطان کے کردار اور اس کے نظریات کو اٹھارہویں صدی کے ضمن میں سمجھنا چاہیے ،جب ہرجانب شہنشاہیت کابو ل بالا تھا۔

Follow us on Google News
Jadeed Bharat
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.