امریکی حکومت متحدہ عرب امارات کی طرف سے تیار کردہ قرارداد کے مسودے میں تبدیلیاں کروانا چاہتی ہے، تاہم اسرائیل اس تبدیلی کا مخالف ہے
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ارکان میں الفاظ پر بحث کے بعد غزہ میں فائر بندی کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد پر بدھ کو ہونے والی ووٹنگ ایک بار پھر مؤخر کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی حکومت متحدہ عرب امارات کی طرف سے تیار کردہ قرارداد کے مسودے میں تبدیلیاں کروانا چاہتی ہے جن میں سے ایک غزہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کے معائنے کی ذمہ داری اقوام متحدہ کو سونپنا ہے تاکہ ان میں امدادی سامان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے، تاہم اسرائیل نے اس کی مخالفت کی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا نسیبہ کا کہنا ہے کہ قرارداد کے مسودے پر اتفاق رائے کے لیے اعلیٰ سطح کے مذاکرات جاری ہیں۔
سلامتی کونسل کے پندرہ ارکان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے موقع پر لانا نسیبہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہر ایک ایسا معاہدہ دیکھنا چاہتا ہے جو مؤثر بھی ہو اور جس پر عمل درآمد بھی ہو سکے۔ ہمارے خیال میں اگر سفارت کاری کو مزید جگہ دی جائے تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔‘
ایک امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن مصری اور اماراتی ہم منصبوں سے بات چیت کریں گے تاکہ بدھ یا جمعرات تک کسی اتفاق رائے پر پہنچا جا سکے۔
سفیر لانا نسیبہ کا کہنا ہے کہ امارات پرامید ہے کہ اگر جمعرات تک مذاکرات کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے تو پھر ’ہم کونسل میں آگے بڑھنے کا جائزہ لیں گے تاکہ قرارداد پر ووٹ کر سکیں۔‘
سلامتی کونسل کے صدر جوز جیویئر ڈی لا گیسکا لوپیز ڈومنگوئز نے کہا ہے کہ ’ایوان صدر کل (جمعرات) کی صبح اس قانون کو منظور کرنے کا فیصلہ کرے گا۔‘
قرارداد کے ابتدائی مسودے میں ’تنازعے کے فوری اور پائیدار خاتمے‘ کا مطالبہ کیا تھا جس کو اعتراض کے بعد تبدیل کر کے تنازع فوری ’معطل‘ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ ’محفوظ اور بغیر رکاوٹ کے انسانی رسائی دی جائے اور تنازعے کے پائیدار خاتمے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔‘
قرارداد میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد ایسا طریقہ کار طے کریں جس کے تحت غزہ میں جانے والی ساری امداد کا اقوام متحدہ خصوصی طور پر معائنہ کرے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ غزہ کو ’انسانی تباہی‘ کا سامنا ہے اور انسانی امدادی نظام کی تباہی سے ’عوامی نظم و نسق بالکل ختم ہو جائے گا اور بڑی تعداد میں نقل مکانی سے مصر پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔‘ گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے رپورٹ کیا تھا کہ غزہ کے 56 فیصد گھر ’شدید بھوک‘ کا شکار ہیں۔