وقف بل وقف املاک پر قبضے کی سازش ہے: ظفر امام
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی، 20 ستمبر:۔: اسلامی قانون میں وقف کی بہت اہمیت ہے، وقف ایکٹ 1995 میں بھی اسے اہمیت دی گئی ہے۔ ایکٹ کے مطابق طویل عرصے تک وقف کے طور پر استعمال ہونے والی جگہ، مسجد، مدرسہ یا قبرستان کو بھی وقف جائیداد تصور کیا جائے گا، چاہے اسے وقف کے طور پر رجسٹر نہ کیا جائے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل دراصل وقف املاک پر قبضہ کرنے کی سازش ہے۔ مذکورہ باتیں جماعت اسلامی ریاست جھارکھنڈ کے سیکریٹری ظفر امام نے جمعہ کو ہوٹل سرتاج میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتےکہی۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل میں بہت سی غلطیاں ہیں، جیسے کہ بل میں وقف کی تعریف، متولیوں کی حیثیت اور وقف بورڈ کے حقوق سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل آئین کے آرٹیکل 26 کے بھی خلاف ہے، جو اقلیتوں کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ادارے قائم کرنے اور انہیں اپنے طریقے سے چلانے کا حق دیتا ہے۔سماجی کارکن اشوک ورما نے کہا کہ بل کے ذریعے ایک سازش کے ذریعے وقف کا کنٹرول مسلمانوں سے چھین لیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں وقف املاک کے تنازعات کو وقف ٹریبونل میں طے کیا جاتا تھا لیکن مجوزہ بل میں اب یہ حق کلکٹر کو دیا گیا ہے۔اس دوران ریاستی سکریٹری اسد باری نے کہا کہ مجوزہ بل میں وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 40 کو بھی مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے یہ دفعہ وقف بورڈ کے دائرہ اختیار، حدود اور حقوق کا فیصلہ کرتی ہے۔اگر یہ بل پیش کیا گیا تو تمام اقلیتیں اور انصاف پسند لوگ اس کے خلاف تحریک چلا نے کو مجبور ہونگے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا پورا تعاون کریںگے۔پریس کانفرنس سے جماعت کے ریاستی سیکریٹری احمد اللہ فلاحی، سماجی کارکن فیروز جیلانی وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔