
نئی دہلی ،17مئی (یواین آئی) ہندوستان میں فلسطینی سفیرعبداللہ محمد اے ابو سویش نے کہاکہ فلسطینیوں کو اپنے علاقوں سے بے دخل کرنے کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا کیونکہ فلسطین فلسطینیوں کا ہی ہے اور اس کی سالمیت اور تقدس کو قائم رکھنے کے لیےہم آخری دم تک جدوجہد کریں گے ۔یہاں فلسطین سفارت خانے میں نکبہ کے 77 سال پورے ہونے اور بے باک صحافی شیریں ابو عاقلہ کی شہادت کی تیسری برسی کے موقع پر منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔ انھوں نے کہاکہ فلسطینیوں نے دہائیوں سے غاصبانہ طاقتوں کے خلاف مقابلہ کیاہے اور حالانکہ اس کے لیے ہمیں ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دینی پڑیں لیکن ہمیں کوئی اپنے وطن عزیز سے بے دخل نہیں کرسکتا۔موصوف سفیر نے کہاکہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قبضہ کےخلاف اپنے حق کے لیے ہمارا احتجاج اور ہماری لڑائی جاری رہے گی اور صہیونیوں کے ذریعہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جارہے ظلم وستم کی المناک داستان ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی بتائیں گے ۔ہر سال 15 مئی کو منائے جانے والے نکبہ جسے فلسطینی قیامت کبریٰ بھی کہتے ہیں، کے دن فلسطینی سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایک قیمتی آثار کو تھامے ہوئے ہوتے ہیں جسے بہت سے خاندانوں نے نسل در نسل اپنے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اُن کے ہاتھوں میں اُن کے ان گھروں کی چابیاں ہوتی ہیں جہاں سے انھیں 77 سال قبل اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے بعد نکال دیا گیا تھا اور پھر وہ کبھی وہاں لوٹ کر نہ جا سکے۔اسی مناسبت سے فلسطینی سفارتخانہ میں منعقدپروگرام میں فلسطینی سفیر نے 77سال پہلے صہیونی آبادکاروں کے ہاتھوں لاکھوں فلسطینی عوام کی انکے گھروں سے بے دخلی اور ہزاروں لوگوں کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے وہی چابی دکھائی ہے جو کئی نسلوں سے ہوتے ہوئے انکے ہاتھ میں آئی ہے ۔سفیر عبداللہ محمد اے ابو سویش نے مزید کہاکہ اسرائیل کی تازہ وحشیانہ فوجی کارروائی میں سیکٹروں صحافیوں کی بھی موت ہوچکی ہے اور ان میں معروف خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ بھی شامل ہیں جنکی موت کے تین سال مکمل ہوگئے ہیں اور جنھیں اپنے فرائض انجام دیتے وقت اسرائیل کی فوج نے بے رحمی سے قتل کردیاتھا۔انکا قصور یہ تھا کہ وہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے مظالم کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے لانے کی ہرممکن کوشش کرتی تھیں ۔فلسطینی سفیر نےمزید کہاکہ وہ یہ چابی اپنی آنے والی نسلوں کے سپردکریں گے تاکہ انھیں معلوم ہوسکے کی انکے آباواجداد کو کس طرح سے صہیونیوں نے انکی ہی سرزمین سے بے دخل کردیا۔اس موقع پرہندوستان میں مراکش کے سفیر محمد مالکی نے اظہار خیال کرتے ہوئے اسرائیل کے ذریعہ فلسطین اور خاص طورسے غزہ کے بے قصورلوگوں پر ڈھائے جارہے مظالم اور ہزاروں لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس نسل کشی کو فورا بند کرنے اور دوریاستی حل کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔اسرائيل نے 14 مئی 1948 کو اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا جس کے اگلے ہی روز 15 ماہ تک جاری رہنے والی عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا جس کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور انھیں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔واضح رہے کہ غزہ کے 24 لاکھ لوگوں میں سے تقریباً سب کو اسرائیل کی جنگ کے دوران کم از کم ایک بار بے گھر کیا جاچکا ہے۔ فلسطینیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رملہ میں نکبہ، یا ’تباہی‘ کی یاد میں احتجاجی مارچ کیا۔رملہ شہر میں نوجوان سڑکوں پر فلسطینی جھنڈے اور واپسی کے نشان والے کالے جھنڈے لہرا رہے تھے، جب کہ اسکول کے بچوں کو شہر کے مرکز میں تقریب میں شرکت کے لیے بسوں میں منتقل کیا گیا۔ ایک تقریب میں نوجوان فلسطینی ’کفایہ‘پہنے ہوئے جھنڈے لہرا رہے تھے، اور بڑی چابیاں تھامے ہوئے تھے، جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ ان کے کھوئے ہوئے گھروں کی چابیاں ہیں، جو اب اسرائیل میں ہیں اور یہ خاندان اپنے گھروں کی طرف واپس آنے کی امید رکھتے ہیں۔فلسطینیوں نے کہا کہ ہمارے لیے غزہ میں زندگی ’ایک طویل نکبہ‘ بن چکی ہے، عزیزوں کو کھو دینا، ہمارے گھروں کا تباہ ہونا، ہمارے روزگار کا ختم ہونا، اس کی واضح علامات ہیں۔خیال رہے کہ شيرين أبو عاقل، فلسطینی نژاد امریکی صحافی اور فلسطینی معاشرے کی ایک ممتاز شخصیت تھیں وہ 25 سال سے الجزیرہ کی رپورٹر تھیں۔ 2022ء میں، جب وہ اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں جینین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک چھاپے کی کوریج کر رہی تھیں، تو ان کو دانستہ اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جب اس نے نیلی جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر بلیو سفید حروف میں “پریس” لکھا ہوا تھا؛، وہ عرب دنیا کی سب سے مشہور میڈیا شخصیات میں سے ایک تھیں اور خاص طور پر بہت سی عرب خواتین اور خاص طور پر فلسطینی خواتین کے لیے ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھی جاتی تھیں۔
