از: گری راج سنگھ
’ایک ملک ایک انتخاب ‘ سے متعلق قائم کی گئی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سفارشوں کو مرکزی کابینہ نے منظور کر لیا ہے ۔ہماری حکومت کی خواہش آئندہ پانچ برسوں میں اسے ملک گیر سطح پر نافذ کرنے کی ہے۔ یہ کوئی سیاسی مدعا نہیں بلکہ پوری قوم کی اہم ضرورت ہے۔ یہ قانون اور پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے پرسنل افیئرز کی رپورٹ 2015سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس پر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی پہل بھی ہوتی رہی ہے۔ یہ مدعا صدر جمہوریہ کے خطاب سے لے کر وزیر اعظم کے کئی بیانات تک بحث کا مرکز بنا رہا ہے۔ ’ایک ملک ایک انتخاب‘کے امکانات پر غور کرنے کے لیے سابق صدر رام ناتھ کووند کی صدارت میں تشکیل دی گئی آٹھ رکنی کمیٹی نے بھی اس پر اپنی سفارش پیش کی ہے، جسے ہماری حکومت نے قبول کر لیا ہے۔ تاہم اس تجویز کی بنیاد سب سے پہلے الیکشن کمیشن نے 1983 میں رکھی تھی جسے اس وقت کی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔ پھر 1999 میں لاء کمیشن نے اس کی تجویز پیش کی، جس پر 2002 میں واجپائی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی آئینی نظرثانی کمیشن یا وینکٹاچالیہ کمیٹی نے اس کی بڑے پیمانے پر حمایت کی۔ بعد ازاں، 2014 میں ہماری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ،اس موضوع کر مرکزی حیثیت حاصل ہوئی اور نتیجہ سابق صدر جمہوریہ ہند کووِند جی کی قیادت میں تشکیل دی گئی آٹھ رکنی کمیٹی کی سفارشات اور اس پر مرکزی کابینہ کی منظوری کی شکل میں سامنے آیا۔ایک ملک ایک انتخاب کیا ہے؟کسی بھی زندہ و جاوید جمہوریت میں انتخاب ایک ضروری عمل ہے۔ بھارت جیسے ملک میں ہموار انتخابی عمل کو یقینی بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔پارلیمانی انتخاب اور ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا ۔ یہ اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کے اعتماد اور حکومت کی نیت سے مشروط ہے۔اس کے علاوہ پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کو بھی اگر اس میں شامل کر لیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے ملک انتخابات کے ایک بھنور میں پھنس گیا ہے۔ اس سے نہ صرف انتظامی اور پالیسی سے متعلق فیصلے متاثر ہوتے ہیں، بلکہ قومی املاک اور عوامی پیسوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ کیوں نہ لوک سبھا، قانون ساز اسمبلیوں، پنچایتوں اور بلدیات کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ اس طرح ‘ایک ملک ایک انتخاب’ لوک سبھا، قانون ساز اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات بیک وقت کرانے کا ایک نظریاتی قدم ہے۔ اس تناظر میں سابق صدر رام ناتھ کووند کی قیادت والی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے دو مرحلوں میں انتخابات کرانے کی سفارش کی ہے۔ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات پہلے مرحلے میں اور بلدیات اور پنچایتی انتخابات دوسرے مرحلے میں ہونے چاہئیں۔ ان کو انتخابات کے پہلے مرحلے کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کیا جائے کہ وہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے سو دن کے اندر مکمل ہوں۔ اس کے لیے چند اسمبلیوں کی میعاد کو کم کرنا پڑے گا اور چند کی میعاد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی نے ایک ملک ایک الیکشن کے معاملے پر مجموعی طور پر 47 سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی۔ اس میں کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں سمیت صرف 15 جماعتوں نے اپنی مخالفت کا اظہار کیا جبکہ 32 جماعتوں نے اس پر اپنی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک ملک ایک الیکشن اتنا ضروری کیوں ہے؟ایک ملک ایک انتخاب ضروری کیوں؟انتخابات کی کثرت کی وجہ سے بار بار ماڈل ضابطہ اخلاق نافذ کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت ضروری پالیسی فیصلے نہیں کر پا رہی ہے اور مختلف اسکیموں اور منصوبوں کی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد حکمراں جماعت، وزراء یا سرکاری حکام کی جانب سے کسی بھی تقرری کا عمل، پروجیکٹ کا اعلان، مالیاتی منظوری یا نئی اسکیم وغیرہ شروع کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ تاکہ حکمراں جماعت کو انتخابات میں اضافی فائدہ نہ ملے،لیکن ہندوستان میں انتخابات کی زیادہ تعداد کی وجہ سے، یہ بعض اوقات ضروری ترقیاتی منصوبوں کو روک دیتا ہے جس سے ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔اگر ملک میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات صرف ایک مرتبہ کرائے جائیں تو ماڈل ضابطہ اخلاق زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک ہی نافذ رہے گا اور باقی چار سال نو ماہ تک ترقیاتی منصوبے چلائے جا سکیں گے،وہ بھی بغیر کسی رکاوٹ کے۔اس لیے ملک کو تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ’ون نیشن ون الیکشن ‘ضروری ہے۔ایک ملک کے ایک انتخاب میں دوسری اہم دلیل یہ ہے کہ انتخاب پر ہونے والے بہت زیادہ خرچ میں کمی آئے گی اور قومی خزانے میں اضافہ ہوگا۔اکثر و بیشتر پیدا ہونے انتخابات کی صورت میں ہونے والا صرفہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتخابی نتائج میں بڑھتا ہوا خرچ ملک کی اقتصادی بچت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہاں ہم واضح کر دینا چا ہتے ہیں کہ 1952 کے عام انتخاب میں جہاں 10 کروڑ روپئے خرچ ہوئے وہیں 2009 کے ہمارے ملک کے انتخاب میں 11 سو کروڑ روپئے خرچ کئے گئے اور 2014 کے انتخابات میں یہ انتخابی صرفہ اضافے سے ہمکنار ہوکر تقریباً 4 ہزار کروڑ روپئے کے بقدر ہو گیا۔حد تو تب ہوگئی جب مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق 2019 کے عام انتخابات کے اخراجات 55 سے 60 ہزار کروڑ روپے بتائے جا رہے ہیں۔کئی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات کا مجموعی خرچ تقریباً 1اعشاریہ 35 لاکھ کروڑ روپے ہے، جو پوری دنیا میں کسی بھی ملک کا سب سے زیادہ انتخابی خرچ ہے۔ایک اندازے کے مطابق اگر آئندہ پانچ برسوں میں ملک میں ہونے والے تمام تر انتخابات جیسے لوک سبھا، اسمبلی اور بلدیاتی انتخابات کے مجموعی اخراجات کو ملایا جائے تو یہ تقریباً 2اعشاریہ پانچ لاکھ سے 3 لاکھ کروڑ روپے بن جائے گا۔لہٰذا، اسے کم کرنے کے لیے ایک ملک ایک الیکشن کا نظریہ بہت اچھا ہے۔ تیسرا، لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے سے کالے دھن پر روک لگ جائے گی اور بدعنوانی پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ انتخابی اصلاحات کی جانب بھی ایک موثر قدم ثابت ہوگا۔چوتھا، ون نیشن ون الیکشن ملازمین کے بنیادی فرائض کی ادائیگی میں تیزی لائے گا اور لوگوں کی عوامی زندگی میں خلل کو بھی کم کرے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کرانے کے لیے سرکاری ملازمت میں کام کرنے والے اساتذہ اور ملازمین کی خدمات لی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا بنیادی کام متاثر ہوتا ہے۔ یہی نہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انتخابات محفوظ ہوں اور ناپسندیدہ عناصر سے متاثر نہ ہوں، مجموعی طور پر تقریباً 1اعشاریہ پانچ لاکھ کروڑ انتخابی عملے اور سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس سے نظام تعلیم اور سیکورٹی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ملک کے دیگر ضروری کام کاج بھی متاثر ہوتے ہیں۔انتخابات کے دوران سخت حفاظتی انتظامات ضروری خدمات کی فراہمی میں خلل ڈالتے ہیں اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ یکے بعد دیگرے ہونے والے انتخابی جلسے اور مہمات بھی ٹریفک کے مسائل میں اضافہ اور عام زندگی کو متاثر کرتی ہیں۔ اس لیے اگر انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں تو یہ انسانی وسائل کے استعمال اور عوامی زندگی میں آسانی کے نقطہ نظر سے بہت بہتر متبادل ہوگا۔پانچویں، چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے لیے بار بار انتخابی مہم چلانے اور وسائل کی کمی جیسی چنوتیوں سے نمٹنا آسان ہو جائے گا اور وہ عوامی مسائل کو پوری قوت کے ساتھ سامنے لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بہت زیادہ انتخابات ووٹروں میں عدم دلچسپی پیدا کرتے ہیں اور اس سے ووٹنگ کے فیصد میں کمی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ پانچ سال میں ایک بار انتخابات کے انعقاد سے عام ووٹروں کی انتخابات کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوگا اور ووٹنگ فیصد بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔چھٹا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ ’ایک ملک ایک انتخاب‘ کوئی انوکھا تجربہ نہیں ہے کہ اس کی مخالفت کی جائے، بلکہ اولین چار انتخابات میں اس قسم کا طرز عمل اپنایا گیا ہے۔ لہٰذا، کوئی بھی پارٹی جو اس عملی پہلو یا افادیت پر شک یا مخالفت کا اظہار کرتی ہے، اسے 1952، 1957، 1962 اور 1967 کے عام انتخابات کو یاد رکھنا چاہیے، جن میں لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوئے تھے۔ حال ہی میں جب 18ویں لوک سبھا انتخابات کے ساتھ اڈیشہ، آندھرا پردیش، سکم اور اروناچل کے اسمبلی انتخابات ہوئے تو باقی ریاستوں کے لیے کیوں نہیں کرائے جا سکتے؟مستقبل کی راہیں :اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت انتخابی بھول بھلیاں میں پھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے ملک کو انتخابات کی بھول بھلیاں سے نجات دلانے کے لیے ایک جامع انتخابی اصلاحاتی مہم کی ضرورت ہے۔ اس میں عوامی نمائندگی کے حصے کو نئی شکل دینا، کالے دھن پر پابندی لگانا، سیاست کو مجرمانہ بنانے کے خلاف سخت قوانین بنانا، تعمیری عدم اعتماد اور تعمیری مخالفت کو فروغ دینا اور عوامی تعلیم کے ذریعے لوگوں میں سیاسی شعور اور بیداری کی مناسب نشوونما جیسے ضروری اقدامات شامل ہیں۔جب بھی قائدین پالیسی کو ترک کر کے اقتدار حاصل کرنے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں تو انتخابات کی کثرت اس ملک کی بدقسمتی بن جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ’ایک ملک ایک ٹیکس‘ کا خیال ہی کامیاب ہو سکتا ہے تو پھر ’ایک ملک ایک انتخاب‘ کرانے میں کیا حرج ہے؟ بیک وقت انتخابات کرانے والا واحد ملک ہندوستان نہیں ہوگا بلکہ بیلجیم، سویڈن اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک بھی بیک وقت انتخابات کراتے رہے ہیں۔ اس سمت میں سیاسی جماعتوں کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ انتخابی اصلاحات کی جانب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہم نے سیاسی نظام میں قوم کی ضروریات کے مطابق اصلاح نہ کی تو یہ قوم کو دیمک کی طرح کھا سکتا ہے۔ اس لیے ’ایک ملک ایک انتخاب‘ایک ترقی پسند قدم ہے جو قوم کی ضروریات کے عین مطابق ہے۔
20
www.jadeedbharat.com – The site publishes reliable news from around the world to the public, the website presents timely news on politics, views, commentary, campus, business, sports, entertainment, technology and world news.
You Might Also Like
سرکاری ملازمین کو بڑا تحفہ، کابینہ سے8ویں پے کمیشن کو منظوری ملی
نئی دہلی، 16 جنوری:۔ سرکاری ملازمین کو بڑا تحفہ دیتے ہوئے مرکزی کابینہ نے 8ویں پے کمیشن کو منظوری دے...
ہندوستان نے خلائی ڈاکنگ میں تاریخ رقم کی؛دنیا کا چوتھا ملک بن گیا
اسرو نے کامیابی کے ساتھ دو سیٹلائٹس کی خلا میں ڈاکنگ مکمل کی نئی دہلی، 16 جنوری (ہ س)۔ ہندوستان...
سری ہری کوٹا میں ‘تیسرا لانچ پیڈ’ قائم کیا جا ئے گا
مر کزی کابینہ نےاسرو کیلئے منظوری دی: 4 سال کی مدت میں قائم کرنے کا ہدف نئی دلی۔ 16؍جنوری۔ ایم...
بحریہ کیلئے2960 کروڑ روپے کی لاگت سے میزائل سسٹم خریدا جائے گا
نئی دہلی، 16 جنوری (یو این آئی) وزارت دفاع نے تقریباً 2960 کروڑ روپے کی لاگت سے بحریہ کے لیے...