چار ماہ کے اندر نیشنل ٹریبیونل کمیشن کے قیام کی ہدایت
نئی دہلی، 19 نومبر (یو این آئی) سپریم کورٹ نے بدھ کے روز ٹریبیونل ریفارمس ایکٹ، 2021 کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون سے علاحدہ اختیارات اور عدلیہ کی آزادی کے آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل بنچ نے مختلف ٹریبیونل بنچ میں اراکین اور ماہرین کی تقرریوں کے سلسلے میں سابقہ فیصلوں میں جاری کردہ حتمی ہدایات پر عمل آوری میں بار بار ناکام رہنے پر مرکزی حکومت پر سخت ناراضگی ظاہر کی۔عدالت عظمی نے کہا کہ متعدد مقدمات میں عدالت کی طرف سے نشان زد کردہ نقائص کو دور کیے بغیر، اس ایکٹ کے ذریعہ محض پہلے مسترد کردہ دفعات کو دوبارہ نافذ کیا گیا ہے۔عدالت عظمی نے 2021 میں مدراس بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر چیلنج کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایکٹ مستند عدالتی احکامات کو “مقننہ کے ذریعہ پلٹنے” کے مترادف ہے اور اسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا ہے۔عدالت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایم بی اے سے متعلق سابقہ فیصلوں میں دی گئی ہدایات، جیسے کہ ٹریبیونل کے اراکین کے لیے کم از کم پانچ سال کی مدت اور وکیلوں کی اہلیت کے لیے کم از کم دس سال کے تجربے کی شرط ، اس وقت تک نافذ رہیں گی جب تک کہ پارلیمنٹ عدالتی ہدایات کی تعمیل میں کوئی نیا قانون نہ بنا لے۔بنچ نے مرکزی حکومت کو چار ماہ کے اندر نیشنل ٹریبیونل کمیشن قائم کرنے کی بھی ہدایت دی۔عدالت نے مزید واضح کیا کہ 2021 کے ایکٹ سے پہلے ہونے والی تقرریوں پر MBA-4 اور MBA-5 کے فیصلوں کا اطلاق ہوگا۔عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ انکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل (آئی ٹی اے ٹی) کے ممبران 62 سال کی عمر تک سروس میں رہیں گے، جس کے چیئرپرسن 65 سال تک خدمات انجام دیں گے۔ اہلیتی عمر کے اسی معیار کو ممبران اور کسٹمز، ایکسائز اینڈ سروس ٹیکس اپیلیٹ ٹریبونل (CESTAT) کے صدر کے لیے نافذ کیا جاتا ہے۔بنچ نے اس بات پر زور دیا کہ 2021 کے ایکٹ کی دفعات یعنی چار سال کی میعاد، کم از کم عمر کی شرط 50 سال، اور انتخابی کمیٹی کے کام کاج میں تبدیلیاں، عدالتی مینڈیٹ کے خلاف ہیں، اور اس لیے یہ آئینی طور پر ناقابل قبول ہیں۔
