پریاگ راج:15مئی(یواین آئی) الہ آباد ہائی کورٹ نےاپنے ایک عبوری آرڈر میں کہا ہے کہ اسلام میں بہو۔شادی کی اجازت شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے لیکن کچھ مسلمان مفاد و شہوت کی تکمیل کے لئے شادی کر اسلامی قانون کا غلط استعمال کررہے ہیں۔عدالت نے اسلام کے عالموں سے کہا کہ وہ دیکھیں کہ اسلام قانون کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔عدالت نے کہا کہ شریعت قانون کے تحت مسلم چار شادی کرسکتا ہے بشرطیکہ سبھی کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ شریعت میں ممنوعہ شادی کرنے پر باطل قرار دینے کی تجویز ہے ۔ایسی عرضی کی شریعت کے تحت پریوار عدالتوں کو سماعت کر طے کرنے کا حق ہے جو بلا جواز مولویوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔عدالت نے کہا کہ اسلامی قانون کے علاوہ دیگر قوانین میں شادی کرنے والے اگر مذہب بدل کر اسلام اپنا کر دوسری شادی کرتا ہے تو یہ دوسری شادی کا جرم مانا جائے گا۔جھوٹ بول کر جنسی تعلقات قائم کر دوسری شادی کرنے والے فرقان کے خلاف عصمت دری، سازش و دوسری شادی کے الزام میں درج مجرمانہ کیس کے جواز کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال نے کہا کیونکہ اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے اس لئے دوسری شادی جرم نہیں ہے۔عدالت نے دوسری بیوی کو نوٹس جاری کیا اور 26 مئی تک جواب طلب کیا ہے تب تک عرضی گزار کے خلاف کسی بھی قسم کے ہراسانی والے کاروائی پر روک لگا دی گی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی کے ابتدائی زمانے میں جدوجہد کی وجہ سے کثیر تعداد میں خواتین بیوہ ہوتی تھیں۔ ان بیواؤں کو سماجی ہراسانی سےبچانے کے لئے قرآن نے ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس رعایت کا مفاد و شہوت کی تکمیل کے لئے ناجائز طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔عرضی گزار کا کہنا ہے کہ دونوں مسلم ہیں۔ اسلام چار شادی کی اجازت دیتا ہے۔ اس لئے دفعہ 494 تعزیرات ہند کا دوشادی کا معاملہ نہیں بنتا ہے۔ اس لئے مجرمانہ کیس رد کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ یہ معاملہ غور و خوض کا ہے کہ آیا اسلام مفاد اور شہوت کی تکمیل کے لئے دوسرے شادی کی اجازت دیتا ہے۔
