نئی دہلی، 26 نومبر:۔ (ایجنسی) سنبھل جیسے واقعات کو روکنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سنبھل انارکی، ناانصافی، ظلم اور بربریت کی زندہ تصویر ہے۔ ملک میں برسوں سے پھیلائی جانے والی نفرت اب گولیوں کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے قانون کی پاسداری نہ کرنے سے ملک کا امن خراب ہو رہا ہے۔ ان واقعات کو روکا جائے۔ عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے باوجود، نچلی عدالتیں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا سروے کرنے کے احکامات جاری کر رہی ہیں، جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔جمعیۃ علماء ہند نے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تحفظ اور اس کے موثر نفاذ کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، جس پر گزشتہ ایک سال سے کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کئی بار مرکزی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کی مہلت دی تھی لیکن اس کیس کی سماعت نہیں ہو سکی تھی۔اب سنبھل واقعہ کے بعد جمعیت نے اس معاملے پر سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔ اسے جلد از جلد سننے کی درخواست کی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو خط لکھ کر چیف جسٹس آف انڈیا کے سامنے یہ معاملہ پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیت ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جو سنبھل میں پولیس فائرنگ اور توڑ پھوڑ کا شکار ہوئے ہیں۔ پولیس کی بربریت کی ایک طویل تاریخ ہے، ملیانہ ہو یا ہاشم پورہ، مراد آباد، ہلدوانی ہو یا سنبھل، ہر جگہ پولیس کا ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ تاہم پولیس کا کام امن و امان برقرار رکھنا اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے۔ بدقسمتی سے پولیس امن کی وکالت کرنے کے بجائے اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ایک ’پارٹی‘ جیسا سلوک کرتی ہے۔
