انجمن فروغ اردو کے ممبران شاہین صفت ہیں:ڈاکٹر محمد ایوب
اردو صحافت کے روشن ستارے تھے خورشید پروز صدیقی:ڈاکٹر ہمایوں اشرف
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی،21؍ستمبر: انجمن فروغ اردو(جھارکھنڈ) کےزیر اہتمام اردو کے معروف و بیباک صحافی خورشید پرویز صدیقی مرحوم (آمد:۲۱؍دسمبر ۱۹۴۵ء۔۹؍جنوری ۲۰۲۵ء)کی یاد میں ایک شام کا اہتمام کیا گیا جس میں اُن کی شخصیت اور زندگی کے نمایاں پہلو پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر دوکتابوں کی رونمائی بھی عمل میں آئی۔ خورشید صاحب کے حوالے سے دو کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب ’’سبزی باغ کی کہانی میری زبانی‘‘ہے جس میں مصنف نے پٹنہ کے مشہور علاقہ سبزی باغ کی یادوں کو سمیٹنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی ہے۔اس سے قبل مرحوم کی ایک کتاب سیرت پاک ؐکے حوالے سے بھی ہے جس کا نام ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ہے۔ اس کتاب کو رقم کرکے خورشید صاحب صوبۂ جھارکھنڈ کے پہلے سیرت نگار بھی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دوسری کتاب ’’ادبی دنیا‘‘کی رونمائی بھی عمل میںآئی ۔یہ رسالہ خورشید پرویز صدیقی کے حوالے سے ترتیب دیا گیا ہے۔اس رسالے کے مدیر حافظ محمد دانش ایاز ہیں جنھوں نے اس رسالے کو بہتر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز قاری محمد عارف کے تلاوت کلام سے ہوا۔ اس کے بعد اظفر دھنبادی نے نعت پاک پیش کیاساتھ ہی چند اشعار انجمن کے حوالے سے پیش کیے۔اس کے بعد مہمانان کرام کو مومینٹو دے کر ان کا استقبال کیاگیا۔ ساتھ ہی اخبارات سے منسلک مدیران کی خدمت میں شال دے کر ان کی عزت افزائی کی گئی۔

مہمان اعزازی معروف مدیر مظفر حسن صاحب نے خورشید پرویز صدیقی کے حوالے سے پرانی یادوں کو ناظرین سے شیئرکیا اور بتایا کہ تین دہائی سے ان دونوں کے درمیان رشتے رہے ہیں اور انہوں نے ساتھ میں کئی اخبارات میں کام کیا ہے۔ مولانا سید تہذیب الحسن رضوی صاحب نے بھی خورشید صاحب کے ساتھ اپنے والہانہ لگائو کو ظاہر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور کہاکہ جھارکھنڈ نے ایک اہم صحافی کو ان کی حیات میں نظر انداز کیا لیکن انجمن فروغ اردو ان کی وفات سے پہلے اور بعد بھی انہیں یاد کررہی ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ معروف سماجی کارکن جنید انور نے خورشیدصاحب کے حوالے سے کئی اہم نکات پر باتیں کی۔ علاوہ ازیں خورشید پرویز صدیقی کے صاحبزادے ایاز صاحب نے بھی والد صاحب کے ساتھ گزارے لمحات کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے ۔ شعبۂ اردو ونوبا بھاوے یونیورسٹی سے تشریف لائے ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مہمان ذی وقار کی حیثیت سے شرکت فرمائی اور ان کی ادبی اور صحافتی خدمات پر بھرپور روشنی ڈالی ۔ پروگرام کے آخر میں انجمن فروغ اردو کے سرپرست اور پروگرام کے صدر ڈاکٹر محمد ایوب نے صدارتی خطبہ پیش کیا۔ اس خطبے میں انہوں نے تمام مہمانوں کا والہانہ استقبال بھی کیا اور انجمن فروغ اردو سے جڑنے کی بات بھی کہی اور کہاکہ ہمارے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ خورشید صاحب کی پہلی کتاب ’بعد از خدا بزرگ توئی ‘ کی رونمائی بھی انجمن کے بینرتلے ہوئی تھی اور آج جب کہ وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ان کی دوسری کتاب کی رونمائی بھی آج ہورہی ہے۔ پروگرام کی نظامت سہیل سعید نے کی اور شکریے کے الفاظ انجمن فروغ اردو کے صدر محمد اقبال نے ادا کیے۔ اس کے ساتھ ہی پروگرام کے اختتام کا اعلان کیاگیا۔ پروگرام میں جن لوگوں نے شرکت فرمائی ان میں نٹ کھٹ عظیم آبادی، ڈاکٹر ہمایوں احمد، نہال سریاوی ،صحافی غلام شاہد،صحافی محمد احسان،صحافی عادل رشید،صحافی محمد عمران، دلشاد نظمی، جمعیت العراقین کے سکریٹری سیف الحق ،ڈاکٹر محفوظ عالم، ڈاکٹر عبدالباسط، پروفیسر منظور علی بیگ، طبیب احسن تابش، قدرت اللہ قدرت، ڈاکٹر محمد مکمل حسین، ماسٹر منور حسین، ڈاکٹر شگفتہ بانو،ڈاکٹر محمد صابر، ڈاکٹر کفیل احمد، نسیم خان، وقاص، ماسٹر حسیب اختر، شہاب حمزہ، ڈاکٹر تنویر مظہر، مکرم حیات، راشد جمال، شگوفہ تہذیب، اقرا پروین، سہانی پروین، عافیہ کلام، رمیز عالم،معراج الدین، محمد ساجد،سرفراز عالم قادری، فہد،کامران، چندر کانت چورسیا، قاری عارف کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت فرمائی۔
