انسانیت کو مدنظر رکھ کر عدالتی نظام کو فروغ دیں
22,575 مستحقین میں 13 کروڑ 86 لاکھ روپے کی اثاثہ جاتی امداد تقسیم
جدید بھارت نیوز سروس
دمکا،13؍دسمبر:جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ترلوک سنگھ چوہان آج دُمکا پہنچے۔ یہاں کنونشن ہال میں انہوں نے قومی لوک عدالت کا ورچوئل افتتاح کیا۔ اس کے ساتھ ہی اسٹیٹ لیول لیگل سروسز کم ایمپاورمنٹ کیمپ میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے 22575 مستحقین کے درمیان 13 کروڑ 86 لاکھ روپے کی اثاثہ جاتی امداد تقسیم کی۔قومی لوک عدالت کے ورچوئل افتتاح کے موقع پر جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے تین جج جسٹس سوجیت نارائن پرساد، جسٹس آنندا سین اور جسٹس پردیپ کمار شریواستو بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر ابھیجیت سنہا، ایس پی پیتامبر سنگھ کھیروار کی بھی موجودگی رہی۔ بڑی تعداد میں مستحقین نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر جھارکھنڈ حکومت کی فلاحی اسکیموں کے اسٹالز کا بھی معائنہ کیا گیا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ دُمکا پہنچے تھے۔
انسانیت کو مدنظر رکھ کر عدالتی نظام تشکیل دیا جائے
اپنے خطاب میں چیف جسٹس ترلوک سنگھ چوہان نے کہا کہ ہمیں ایسا عدالتی نظام بنانا ہوگا جس میں ہر فرد کو محض ایک کیس فائل نہیں بلکہ وقار اور حساسیت کے حامل ایک انسان کے طور پر دیکھا جائے۔ جب ہم کمزور طبقے کے لوگوں کی بات غور سے سنتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی تکالیف کتنی حقیقی ہیں۔انہوں نے کہاکہ “گھریلو تشدد کا شکار شخص صرف قانونی تحفظ ہی نہیں چاہتا بلکہ جذباتی سہارا اور معاشی تحفظ بھی چاہتا ہے۔ استحصال سے بچایا گیا بچہ صرف بازآبادکاری ہی نہیں بلکہ تعلیم اور محبت بھی چاہتا ہے۔ حقوق سے محروم کیا گیا مزدور صرف معاوضہ ہی نہیں بلکہ استحصال کے خلاف طویل مدتی تحفظ بھی چاہتا ہے۔”لوگوں سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہوئے چیف جسٹس نے کہاکہ “انصاف صرف قانون کے ذریعے ہی فراہم نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ مصیبت میں گھرے لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور احساس کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ضروری ہے۔ مستقبل میں ہمیں عدالتی نظام کو مزید حساس اور جواب دہ بنانا ہوگا۔ قانونی خدمات میں ٹیکنالوجی کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ریاست کے دور دراز علاقوں تک بھی ہماری رسائی یقینی ہو سکے۔ ہمیں پالیسیوں اور منصوبوں کو بدلتی سماجی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔”
لوک عدالتوں کا کردار نہایت اہم
چیف جسٹس نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصادم کے بجائے مکالمے اور مفاہمت کو ترجیح دینا ہی کسی معاشرے کے اخلاقی اور سماجی تانے بانے کو مضبوط کرتا ہے۔ لوک عدالتیں اسی اہم کردار کو ادا کرتی ہیں۔ یہ ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں جہاں تنازعات کو بڑھایا نہیں جاتا بلکہ ہمدردی، احترام اور باہمی سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف زیرِ التوا مقدمات کو کم کرتی ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر انسانی تکالیف کو کم کرتی ہیں۔ یہ ایسے حل پیش کرتی ہیں جو مسلط نہیں کیے جاتے بلکہ فریقین کی رضامندی سے قبول کیے جاتے ہیں۔ جھارکھنڈ اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی (جھالسا) اب صرف مفت قانونی نمائندگی تک محدود نہیں رہی بلکہ مجموعی بااختیاری کی سہولت فراہم کرنے والی بن چکی ہے۔
انسانی اسمگلنگ پر مبنی شارٹ فلم کی تعریف
دُمکا کے کنونشن ہال میں اس موقع پر لڑکیوں کی اسمگلنگ پر مبنی ایک شارٹ فلم بھی دکھائی گئی، جس میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح چند پیسوں کے لالچ میں کوئی شخص ایک بچی کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیتا ہے۔ چیف جسٹس نے اس فلم کی بھرپور تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں یہ مختصر فلم دیکھنے کا موقع ملا جو نہایت فکر انگیز اور حوصلہ افزا تھی۔ یہ ہمیں نہ صرف درپیش چیلنجز پر بلکہ اداروں کی ذمہ داریوں پر بھی غور کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ “میں ان نوجوان صلاحیتوں کی ستائش کرتا ہوں جن کی حساسیت اور تخلیقی صلاحیت اس فلم میں نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان کی کوششیں بہت سے لوگوں کو قانونی بیداری سے بامعنی طور پر جوڑنے کی ترغیب دیں گی۔”
ضلع انتظامیہ کی کوششوں کی ستائش
چیف جسٹس نے اسٹیج سے ضلع انتظامیہ کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں ضلع انتظامیہ کے مختلف محکموں کی فعال شرکت دیکھ کر میں خاص طور پر خوش ہوں۔ فلاحی اسکیمیں چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہوں، وہ تبھی اپنے مقصد کو حاصل کرتی ہیں جب ہدف شدہ مستحقین انہیں بغیر خوف، ابہام یا تاخیر کے حاصل کر سکیں۔
جسٹس سوجیت نارائن پرساد نے انسانی اسمگلنگ پر توجہ مرکوز کی
وہیں ہائی کورٹ کے جسٹس سوجیت نارائن پرساد نے جھارکھنڈ میں جاری انسانی اسمگلنگ کو نہایت تشویشناک قرار دیا۔ انہوں نے اسٹیج پر موجود ضلع کے ڈپٹی کمشنر ابھیجیت سنہا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اسے روکنے کے ساتھ ساتھ جو لڑکیاں اور خواتین اسمگلنگ سے بچ کر آتی ہیں، انہیں روزگار سے جوڑنے کی سمت میں اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کے دوران دکھائی گئی اسمگلنگ پر مبنی شارٹ فلم دیکھ کر آنکھیں نم ہو گئیں۔
