نامکم میں غریبوں کی غیر قانونی جھگیوں کی مسماری
جدید بھارت نیوز سروس
رانچی، 17 جولائی:۔ راجدھانی رانچی کے نامکم میں واقع پاور گرڈ میں ایک بڑا ڈاکہ ہونے کے بعد شہر کی انتظامیہ نے بے بس عوام کے خلاف مزید اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، پیر کی رات 20 سے 25 مسلح افراد نے پاور گرڈ کے ملازمین اور ہوم گارڈ کے جوانوں کو یرغمال بنا کر 15.91 لاکھ روپے مالیت کے سامان کو لوٹ لیا تھا۔ اس کے بعد، شہر کے مقامی حکام نے واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایس آئی ٹی (SIT) تشکیل دی، جس میں ڈی ایس پی امیر کمار پانڈے، نامکم تھانہ کے انسپکٹر منوج کمار اور ٹاٹیسلوی تھانہ کے انسپکٹر رنجیت کمار سنگھ سمیت دیگر افسران شامل ہیں۔لیکن شہر کی انتظامیہ نے اس کے فوراً بعد جس اقدام کا آغاز کیا، وہ انتہائی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بدھ کے روز، بلدیہ کی ٹیم نے لوواڈیہ دورگا سورین چوک کے قریب غریبوں کی غیر قانونی جھگیوں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر چلایا۔ اس دوران، ایس ڈی او کے احکام پر، مجسٹریٹ راجو نائیک اور نامکم پولیس کی مشترکہ ٹیم نے ہائی ٹینشن فیکٹری کی دیوار سے لگ کر بنائی گئی جھوپڑی نما دکانوں اور میدان و سڑک کے کنارے بنے غیر قانونی کاروباروں کو توڑ دیا۔بلدیہ کی جانب سے یہ کارروائی اس بات کا غماز ہے کہ اس نے غریب اور بے سہارا لوگوں کو مزید مشکلات میں ڈالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ شہر میں اس وقت ان غیر قانونی تعمیرات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور ان شکایات کا سلسلہ بھی بڑھ رہا تھا کہ لوگ یہاں غیر قانونی طور پر کاروبار چلا رہے تھے۔ لیکن اس کارروائی کے دوران ایک اور حیرانی کی بات سامنے آئی، وہ یہ کہ کئی جھوپڑی نما دکانوں میں “سمارٹ میٹر” لگے ہوئے تھے، جو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ جب دکان غیر قانونی تھی، تو ان میں سمارٹ میٹر کیسے نصب کیے گئے؟یہ سوالات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کارروائی دراصل غریب عوام کے لیے ایک انتقامی عمل بن کر رہ گئی ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان غریبوں کے پاس اپنی روزی کمانے کے اور کوئی ذرائع نہیں ہیں، ایسے میں انہیں بے گھر کرنا اور ان کی کمائی کے مواقع چھیننا کسی طرح بھی انصاف کے قریب نہیں ہے۔یہ واقعہ ایک طرف جہاں قانون اور امن و امان کی شدید ناکامی کو ظاہر کرتا ہے، وہیں دوسری طرف انتظامیہ کے غیر متناسب اقدامات نے عوام کے دلوں میں مزید مایوسی اور غصہ پیدا کیا ہے۔ اس کے برعکس، بلدیہ کی ٹیم کا مقصد اگر واقعی شہر کی صفائی و بہتری تھا تو انہیں ایسے اقدامات پر غور کرنا چاہیے تھا جو تمام شہریوں کے مفاد میں ہوتے، خاص طور پر ان غریبوں کے لیے جو پہلے ہی غربت اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
